|

وقتِ اشاعت :   3 hours پہلے


پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی سیکیورٹی رسک بنتے جارہے ہیں ،کئی دہائیوں سے غیر ملکی باشندے پاکستان میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیرہیں جن میں بعض عناصر براہ راست دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث پائے گئے ہیں جبکہ دہشت گردوں کی سہولت کاری میں بھی ان کا نام آتا ہے۔
غیر ملکی افغان مہاجرین کی بڑی تعداد اب بھی پاکستان میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر ہیں بعض مہاجرین نے غیر قانونی طور پر قومی دستاویزات بنائے ہیں جو ملک کے مختلف شہروں میں کاروبار کررہے ہیں، سیاست پر اثر انداز ہورہے ہیں، منشیات اور اسلحہ سمیت دیگر اشیاء کی اسمگلنگ جیسے سنگین جرائم میں بھی ملوث پائے گئے ہیں۔
سب سے زیادہ متاثرہ صوبوں میں بلوچستان اور خیبرپختونخواہ شامل ہیں جہاں افغان مہاجرین کی بڑی تعداد رہتی ہے ۔
بہرحال مہاجرین کی واپسی یقینی بنانے کیلئے حکومت نے سخت اقدامات اٹھانے شروع کردئیے ہیں۔
حکومت نے غیر قانونی طورپر مقیم غیر ملکیوں کی وطن واپسی کی ڈیڈ لائن میں توسیع نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں اور افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کی پاکستان چھوڑنے کی ڈیڈ لائن 31 مارچ ہے جس میں توسیع نہیں کی جائے گی۔
مقررہ تاریخ کے بعد غیرقانونی طورپرمقیم غیرملکیوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی اور ایسے افراد کو گرفتار کر کے ملک بدر کیا جائے گا۔
یہ فیصلہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے واقعات میں افغان شہریوں کے براہ راست ملوث ہونے کے باعث کیا گیا ہے۔
حال ہی میں 4 مارچ 2025 کو بنوں کینٹ خود کش حملے میں فتنہ خوارج کے 16 دہشت گرد ہلاک ہوئے تھے، ہلاک خوارجیوں میں افغان دہشت گرد بھی شامل تھے، اس حملے کی منصوبہ سازی افغان سرزمین پر کی گئی تھی۔
وزارت داخلہ کے مطابق غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی ملک بدری کا عمل یکم اپریل سے شروع کر دیا جائے گا۔
گزشتہ روز وزارت داخلہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ تمام غیرقانونی مقیم غیرملکی 31 مارچ تک رضاکارانہ طور واپسی یقینی بنائیں۔
ریاست کی جانب سے واضح کردیا گیا ہے کہ اب مہاجرین کو مزید برداشت نہیں کیا جائے گا جو دہشت گردی میں ملوث ہیں اورپاکستانی پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔
مہاجرین کی واپسی سے ملک میں قیام امن میں بہتری آنے کے ساتھ معاشی بوجھ بھی کم ہوگا۔
حکومت کی جانب سے مہاجرین کی واپسی پر کسی طرح کا سمجھوتہ نہ کرنے اور دباؤ نہ لینے کا واضح فیصلہ کیا گیا ہے جو کہ خوش آئند ہے کیونکہ اب ملک مزید بدامنی اور منفی سرگرمیوں کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *