|

وقتِ اشاعت :   March 13 – 2025

پاکستان ایک زرعی ملک شمار ہوتا ہے مگر زمینداروں کو کوئی ریلیف نہ ملنے کے باعث زرعی شعبہ شدید متاثر ہے خاص کر بجلی اور پانی کی قلت نے پیداواری صلاحیت کو بہت حد تک متاثر کیا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی اورسیلابوں کے باعث زمینداروں نے بڑے پیمانے پر نقصانات اٹھائے ہیں۔
زمیندار گزشتہ چند برسوں سے شدید مالی بحران سے دوچار ہیں اور ان کا مطالبہ نقصانات کا ازالہ سمیت بجلی اور پانی کی فراہمی ہے تاکہ زمینداراپنی زمینوں پر بہتر کاشت کاری کرسکیں جس سے پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوگا مگر زرعی ٹیکس پر زمینداروں کے شدید تحفظات ہیں۔
آئی ایم ایف کی جانب سے زرعی شعبہ پر ٹیکس لاگو کرنے کی شرط سے زمیندار پریشان ہیں۔
اب حکومت نے آئی ایم ایف کو زرعی شعبے پر انکم ٹیکس عائد کرنے کی شرح سے آگاہ کر دیا ہے۔
عالمی مالیاتی ادارے کو بتایا گیا کہ صوبائی حکومتوں نے زرعی انکم ٹیکس کی شرح بڑھانے کے لیے قانون سازی کی ، زرعی آمدن پر انکم ٹیکس کی شرح کارپوریٹ سیکٹر کے برابر رکھی گئی ہے، زرعی شعبے پر سالانہ 6 لاکھ روپے آمدن تک کوئی ٹیکس لاگو نہیں ہو گا۔
دستاویز کے مطابق سالانہ 6 لاکھ سے 12 لاکھ روپے تک زرعی آمدن پر 15 فیصد ، 12 سے 16 لاکھ تک 90 ہزار فکس ٹیکس جبکہ 12 سے 16 لاکھ روپے کے سلیب میں 12 لاکھ سے زائد آمدن پر 20 فیصد ٹیکس ہو گا۔
اس کے علاوہ سالانہ 16 لاکھ سے 32 لاکھ روپے آمدن پر ایک لاکھ 70 ہزار فکسڈ ٹیکس ، 16 سے 32 لاکھ روپے کے سلیب میں 16 لاکھ سے زائد آمدن پر 30 فیصد ، 32 سے 56 لاکھ روپے آمدنی پر 6 لاکھ 50 ہزار روپے فکس ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔
سالانہ 32 سے 56 لاکھ روپے کے سلیب میں 32 لاکھ سے زائد آمدن پر 40 فیصد ، سالانہ 40 سے 56 لاکھ روپے تک زرعی آمدنی پر 16 لاکھ 10 ہزار ، 56 لاکھ روپے سے زائد آمدن پر 45 فیصد ٹیکس ہو گا۔
حکومت کی جانب سے ٹیکسز کا حتمی فیصلہ کرلیا گیا ہے اور عالمی مالیاتی ادارے کو آگاہ بھی کردیاگیا ہے جس سے زمینداروں کی مشکلات یقینا مزید بڑھ جائینگی حکومت ٹیکس لاگو کرنے کے ساتھ زمینداروں کیلئے ریلیف کے حوالے سے بھی اقدامات اٹھائے جس سے زمینداروں کو کاشت کاری میں آسانی ہوتاکہ وہ اپنی پیداوار صلاحیت کوبڑھائیں جس سے زمیندار ٹیکسز کا بوجھ برداشت بھی کرسکیں اور زرعی شعبہ مزید متاثربھی نہ ہو کیونکہ ٹیکس عائد کرنے کے بعد جو غذائی اجناس پیدا کی جائینگی ان کی قیمتیں بھی بڑھ جائیں گی جس کا بوجھ عوام پر براہ راست پڑے گا جبکہ پہلے سے ہی ٹیکسز کا ایک بڑا حصہ ان کی محدود آمدن سے لیا جارہا ہے جس کا اعتراف حکومت خود کررہی ہے۔
]آئی ایم ایف پروگرام مجبوری تو ہے مگر دوسرے پہلوؤں پر بھی حکومت غور کرے کہ ٹیکسز کے بوجھ سے سب کے مالی مسائل بڑھیں گے لہذا اشرافیہ سمیت ان نادہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لائیں جو اربوں کھربوں روپے کمانے کے باوجود ٹیکسز ادا نہیں کررہے، اپنے کاروبار کو وسعت دینے کے ساتھ جائیدادیں بھی بیرونی ممالک میں بنا رہے اور سرمایہ بھی منتقل کررہے ہیں۔
شفاف اور موثر ٹیکس کا نظام لاگو کیا جائے تاکہ کسی ایک شعبے اور عام لوگوں پر ٹیکس کا دباؤ نہ بڑھے۔