|

وقتِ اشاعت :   9 hours پہلے

کوئٹہ : بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ بلوچستان سے گوادر کو نکال بھی دیں

تب بھی بلوچستان برصغیر کا سب سے زیادہ وسائل سے مالا مال صوبہ ہے جس کو ریاستی بیانیہ نے سے دور کر رکھا ہے جبکہ پاکستان بلوچستان کے بغیر کچھ نہیں ایکس پر لکھے جانے والے اپنے ایک کھلے خط ہر اس شخص کے نام جو ہمیں سمجھنے کا دعوی کرتا ہے مزاحیہ بات ہے کہ آپ میں سے اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان صرف گوادر تک محدود ہے۔

گوادر کو نکال بھی دیں، تب بھی بلوچستان برصغیر کا سب سے زیادہ وسائل سے مالا مال صوبہ ہے۔ مگر افسوس، ریاستی بیانیے نے آپ کو اس سچ سے دور رکھا ہے۔

اب ذرا حقیقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھیں۔

بلوچستان وہ خطہ ہے جہاں ریکوڈک کی زمینوں میں سونا اور تانبا دفن ہے، جن کی مالیت کھربوں ڈالرز میں ہے۔

اگر یہ وسائل بلوچ عوام کے ہاتھ میں ہوتے تو شاید آج وہ دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہوتے۔

پھر سیندک ہے، جہاں کے خزانے نکالے جا رہے ہیں، مگر ان کے وارث آج بھی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔

یہ وہ سرزمین ہے جس نے پاکستان کو قدرتی گیس دی، جس سے پورے ملک کے چولہے جلتے ہیں، فیکٹریاں چلتی ہیں، معیشت پروان چڑھتی ہے مگر اسی بلوچستان کے کئی گھر آج بھی اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں، چولہے ٹھنڈے ہیں، بچے سردیوں میں ٹھٹھر کر مر جاتے ہیں۔

یہ وہ خطہ ہے جس نے پاکستان کو سمندر دیا، گوادر دیا جس پر آج سب کی نظریں مرکوز ہیں، اقتصادی راہداری دی جس سے پورے ملک کے تاجروں کو فائدہ پہنچا، مگر یہی گوادر جہاں کے ماہی گیر آج بھی مچھلیاں پکڑنے کے لیے اجازت نامے مانگتے ہیں، روزی روٹی کے لیے ترستے ہیں۔

بلوچستان نے سب کچھ دیا، مگر خود ہمیشہ بھوک، محرومی، اور لاپتہ افراد کے نوحے سنے۔ یہ کیسا انصاف ہے کہ جس زمین نے سب کچھ دیا، اس کے لوگ آج بھی پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں؟

جس زمین نے پاکستان کو شناخت دی، آج اسی کے فرزندوں کی قبریں بے نام ہیں؟یہ وہی بلوچستان ہے جہاں ایک بیٹی اپنے باپ کے جوتے ڈھونڈتی ہے، اور جب ان میں سے دھول نکلتی ہے، تو وہ ایسی چیخ مارتی ہے کہ پورا بلوچستان اس کے ساتھ چیخ اٹھتا ہے۔

کیونکہ یہاں کوئی ایک گھر نہیں بچا جس کا کوئی فرد لاپتہ نہ ہو، میرا اپنا گھر بھی نہیں!چلو، وہ سب تو ایجنٹ ہیں، مگر میرا والد؟ وہ جو بلوچستان کا پہلا وزیرِاعلی تھا؟ وہ جس نے آپ کے آئین پر حلف اٹھایا، جمہوریت پر یقین رکھا، ہر غیر آئینی طاقت سے لڑا؟ وہ جو مینگل قبیلے کا سردار تھا؟ اس کا بیٹا بھی لاپتہ ہو گیا پھر بھی بلوچستان ہی غلط؟اور جب انصاف مانگنے آتے ہیں تو کیا ملتا ہے؟ ہمدردی؟ پچھتاوا؟ نہیں! سوال پوچھا جاتا ہے کیا آپ خود کو پاکستانی سمجھتے ہیں؟

اور ہاں، بہت معذرت کے ساتھ، یہاں برابری صرف اس وقت آتی ہے جب کسی پنجابی کے خون پر مذمت کرنی ہو، ورنہ بلوچ کی چیخوں پر یقین تک نہیں آتا کہ یہ اسی ملک کے شہری ہیں۔

دوری خود پیدا کر کے پوچھتے ہو، کیوں رو رہے ہو؟یہ ملک ہمیشہ ہماری چیخوں پر بہرا بنا رہا، ہمیشہ ہمیں نظر انداز کیا، ہمیشہ ہمیں غدار کہا، اور اب وہی کہہ رہا ہے ہمیں تمہاری ضرورت ہے آپ خوش ہوں یا ناراض، مجھے یہ کہنا پڑے گا: پاکستان، بلوچستان کے بغیر کچھ بھی نہیں۔

اللہ آپ سب کے دل میں اتنی ہمدردی ڈالے کہ آپ سمجھ سکیں کہ آج کا بلوچ نوجوان آپ سے بات کرنے کے لیے تیار کیوں نہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ آپ کی وہ انا پرستی ہے جو آج بھی اسے اپنا مقام دینے کو تیار نہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *