تربت: بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان اس جدید دنیا میں جہاں انسانی زندگی کے بنیادی سہولیات سے محروم ہے وہی تعلیمی نظام مخدوش حالات اور جمود کا شکار ہے
بلوچستان بھر کے تعلیمی اداروں میں بنیادی انفراسٹرکچر، اساتذہ کی کمی، ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی سمیت بجٹ کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
دوردراز علاقوں میں بنیادی تعلیمی ادارے سرے سے وجود ہی نہیں رکھتے، جہاں کہیں ادارے موجود ہیں وہاں بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث داخلہ تناسب نہ ہونے کے برابر ہے اور تمام اداروں اساتذہ کی کمی اور غیر حاضری جیسے مسائل درپیش ہیں۔
بلوچستان میں ہردور حکومت تعلیمی ایمرجنسی اور تعلیمی انقلاب کے نام پہ بلند و بالا دعوے تو کرتی ہیں، لیکن وہیں زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ کرونا وبا ، سیلابوں کے بعد تعلیمی نظام کے حالات مزید ابتر ہوگئے۔ بلوچستان میں صرف بڑے شہروں بالخصوص کوئٹہ، کیچ اور خضدار میں اعلی تعلیمی ادارے برائے نام فعال ہیں مگر بدقسمتی کے ساتھ کچھ عرصے سے انہی تعلیمی اداروں کے اندر ہم ایک نئی روایت جنم لیتے دیکھ رہے ہیں جیسے کہ انتطامی مسائل کی وجہ سے بلوچستان کے برے اعلی تعلیمی اداروں کی بندش معمول بن چکی ہے۔
بلوچستان یونیورسٹی ایک عرصے تک اساتذہ کو تنخواہیں نہ ملنے کے باعث بند رہی، جبکہ کم و بیش ایسی ہی صورتحال بیوٹمز یونیورسٹی ، تربت یونیورسٹی، پنجگور یونیورسٹی، بولان میڈیکل کالج کا بھی ہے۔
اس وقت تربت یونیورسٹی اور لوامز یونیورسٹی اوتھل میں انتظامیہ کی آمرانہ رویوں کیخلاف طلبا احتجاج پرہیں۔ کچھ عرصہ قبل بولان میڈیکل کالج میں طلبا کی معمولی جھگڑے کو جواز بنا کر پچھلے تین مہینوں سے تالا لگایاہوا ہے۔ تعلیمی ادارون کی بندش، غیر معمولی پابندیان، تعلیمی ادارون کے اندر ہراسمنٹ ، پروفائلنگ کے واقعات بلوچستان بھر کے طالبعلموں کیلیے شدید بے چینی اور زہنی دباو کا سبب بن رہے ہیں۔ رہی سہی کسر آج پوری کی گئی جب بلوچستان کے تین بڑے تعلیمی اداروں کو تاحکم ثانی بند کرنے کے نوٹیفیکشن منظر عام پہ آئے۔
بلوچستان یونیورسٹی کی جانب سے شائع کی جانیوالی اعلامیے کے مطابق یونیورسٹی میں فزیکل کلاس معطل کردی جائیں گی اور ورچوئل ایجوکیشن سسٹم کے تحت یونیورسٹی کا تدریسی نظام تا حکم ثانی شروع کردیا جائے گا اس اعلامیے سے ہزاروں طلبا میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے
بلوچستان میں آدھی آبادی سے زائد حصے میں انٹرنیٹ جیسی سہولت وجود نہیں رکھتی تو وہاں آنلائن کلاسز کیسے ممکن ہیں۔
وہیں بیوٹمز یونیورسٹی اعلامیے میں سیکورٹی کو جواز بنا کر ادارے کو بند کیا گیا جبکہ تربت یونیورسٹی میں ساتھی طالبعلموں کی رسٹیکشن کیخلاف جاری طلبا احتجاج کو جواز بنا کر یونیورسٹی کو بند کرنے کا اعلان کیا جا چکا ہے۔
بلوچستان کے ان بڑے تعلیمی اداروں کی یوں اچانک بندش باعث تشویش ہے جس سے ہزاروں طلبا کی تدریسی عمل متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ تنظیم بلوچستان کے باشعور عوام سے گزارش کرتی ہے کہ وہ ایسے انتظامی فیصلوں کیخلاف لب کشائی کریں اور سیاسی جماعتوں، کارکنوں کو اس مسئلے پہ سنجیدہ ہوکر حکومت وقت سے ایسے اعمال کیخلاف سختی سے جوابدہ کریں۔
تنظیم بلوچستان کے تعلیمی اداروں کی اچانک بندش کی مذمت کرتی ہے اور موجودہ حکومت، یونیورسٹیز انتظامیہ سے مطالبہ کرتی ہے کہ ہزاروں طلبا کی تعلیمی سفر میں تعطل لانے کے بجائے تعلیمی اداروں میں تدریسی عمل کو فالفور بحال کیا جائے۔
Leave a Reply