|

وقتِ اشاعت :   5 hours پہلے

تربت:  بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں نے تربت یونیورسٹی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس پریس کانفرنس کا بنیادی مقصد ہمارے احتجاجی دھرنے، اس کے خلاف یونیورسٹی انتظامیہ کے بے بْنیاد اعلامیہ اور ہمارے آئندہ لائحہ عمل کے متعلق آپ کو آگاہ کرنا ہے۔

گزشتہ چھ دنوں سے یونیورسٹی ایڈمن بلاک کے سامنے ریسٹیکیٹ و معطل طلبا کی بحالی سمیت دیگر انتظامی معاملات پر مطالبات کی خاطر ہمارا احتجاجی دھرنا جاری ہے۔

اس احتجاجی دھرنے کے پہلے دن ہمارا احتجاج مکمل پْرامن شکل میں ایڈمن کے سامنے جاری رہا لیکن چوبیس گھنٹے گزرنے کے باوجود مطالبات پر عمل درآمد تو دور کی بات، یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے ایک نمائندہ ہم سے ملاقات تک کے لئے نہیں آیا۔

جس کو مد نظر رکھتے ہوئے، باعثِ مجبوری اگلے دن ہم نے ایڈمن بلاک کو بند رکھا. جس کا بنیادی مقصد ہی یہی تھا کہ ہمیں سنا جائے۔ لیکن ہمیں سننے کی جگہ، یونیورسٹی انتظامیہ کا ایک وفد مذاکرات کے نام پر طلبا کی پروفائلنگ کرتی ہے، اْنہیں پولیس و ایف۔سی کی مداخلت کے نام پر دھمکاتی ہے اور بعد ازاں انہی طلبا کے نام پر سسپنشن و ریسٹیکیشن لیٹر جاری کرتی ہے،

جو اس معاملہ پر یونیورسٹی انتظامیہ کی غیر سنجیدگی کو واضع کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ درحقیقت اس مسئلے کا حل اتنا پیچیدہ و مشکل بھی نہیں۔ لیکن یونیورسٹی انتظامیہ کی غیر سنجیدگی، ہٹ دھرمی و ضد پر مبنی کاوشوں نے معاملات کو اس نہج پر لا کر کھڑا کیا ہے۔

آج صبح یونیورسٹی انتظامیہ کا ایک وفد وائس چانسلر گْل حسن کی سربراہی میں احتجاجی دھرنے پر آتی ہے، تو طلبا سے گیٹ کھولنے کا مطالبہ کرتی ہے۔

جس پر ہمارا بْنیادی جواب ہی یہی ہوتا ہے کہ ہم تو چاہتے ہیں کہ معاملات حل کی طرف جائیں، ایڈمن کا گیٹ آپ کے لئے کھلے اور کلاس روم کے دروازے ہمارے لئے۔

یہ توممکن ہی نہیں کہ آپ ہمیں کلاس سے باہر نکالیں اور خاموش رہیں۔

لیکن وہ بضد ہوتے ہیں کہ ہم غیر مشروط طور پر ایڈمن کے گیٹ کو کھولیں۔ لیکن ایک دفعہ قبل مذاکرات کے نام پر ہمارے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا، وہ ہمیں غیر مشروط طور پر گیٹ کو کھولنے سے روکے رکھی ہے۔

جس پر بغیر کچھ کہے اور مطالبات و مسائل پر سنجیدہ بات کرنے کی بجائے یہ وفد دوبارہ چلی جاتی ہے۔ جس کے چھ گھنٹے بعد یونیورسٹی کو غیر اعلانیہ طور پر بند کرنے کا اعلامیہ نازل ہوتا ہے۔

یہ اعلامیہ درحقیقت من گھڑت اور حقائق سے منافی ہے۔ جس کا واحد مقصد اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنا ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ یونیورسٹی کو ایک پْرامن احتجاج کو سبوتاڑ کرنے کی خاطر بند رکھنا در حقیقت سب سے بڑا قومی جرم ہے۔ جو ان طلبا کے مستقبل کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہے۔ بحیثیتِ طالبعلم ادارہ، ہمیں بار بار اس جانب دکھیلا گیا کہ ہم یونیورسٹی گیٹ کو مجبوراً بند کریں، لیکن ہمیں احساس تھا کہ ہمارے مطالبات چونکہ ایڈمن کے ساتھ ہیں، تو اس دوران عام طالب علم کی پڑھائی متاثر نہ ہو، لیکن یونیورسٹی انتظامیہ جو اپنے آپ کو میڈیا میں تعلیم دوست ظاہر کرتی ہے، وہ طلبا کے مطالبات پر عمل در آمد کرنے کی جگہ یونیورسٹی کو غیر معینہ مدت کی خاطر تالا لگا دیتی ہے۔

آپ خود فیصلہ کریں، یہ کہاں کا انصاف اور تعلیم دوستی ہے۔ اس پریس کانفرنس کے توسط سے ہم یونیورسٹی انتظامیہ کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ خدارا وہ طلبا کے مستقبل کے ساتھ کھیلنا بند کرکے طلبا کے جائز مطالبات پر عمل درآمد اور یونیورسٹی میں ایک پْر امن اور شعوری ماحول کے فروغ کی خاطر راستہ ہموار کرے۔ ہم اس انتظامیہ کے مذموم ارادوں کو اچھی طرح سے سمجھ چکے ہیں کہ وہ یونیورسٹی میں اپنی اجارہ داری قائم کرکے تنقیدی و علمی ماحول کا قلع قمع کرنے پر تْلی ہوئی ہے۔ لیکن آج کا طالبعلم باشعور ہے، آج کا طالبعلم اپنے بنیادی حقوق پر باعلم ہے، آج کا طالب علم اپنی طاقت کو پہچانتا ہے۔ اور یہ طالبعلم اس یونیورسٹی کو یرغمال بننے نہیں دے گی۔

ہماری مزاحمت کمیونیکیشن کی خاطر راستوں کو ہموار کرنے کا وسیلہ ہے۔ اس احتجاجی دھرنے اور مزاحمت کا بنیادی مقصد ہی یہی تھا کہ طاقت کے استعمال کے بجائے یونیورسٹی کو بات چیت کے میز پر لایا جائے۔

لیکن یونیورسٹی کی مسلسل بچگانہ پالیسیاں اور اس دوران اپنے ہی طالبعلموں کے ساتھ کسی پروڈکٹیو بات چیت میں اینگیج نہ کرنا نہ صرف تربت یونیورسٹی کے طلبا بلکہ پورے بلوچستان میں تعلیمی ماحول پر غلط اثرات مرتب کرے گی۔ ہم یونیورسٹی انتظامیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ بچوں جیسی انا اور ضد چھوڑ کر طلبا کا مستقبل زوال نہ کریں، بلکہ آئیں اور بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کا حل نکالیں۔

اور جب تک ہمارے طلبا کی بحالی سمیت دیگر انتظامی معاملات پر مطالبات تسلیم نہیں کئے جاتے، ہمارا احتجاجی سلسلہ جاری رہے گا، یونیورسٹی کی بندش کی صورت میں ہم فلحال اپنے احتجاجی دھرنے کو معطل کر رہے ہیں لیکن جب تک جائز مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے، ہمارا یہ احتجاجی تسلسل مختلف شکلوں میں جاری رہے گا۔

اس دوران ہم تربت یونیورسٹی کے طلبا و اساتذہ سمیت کیچ کی باشعور عوام سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنے تعلیمی ادارہ کو یرغمال بنانے سے بچائیں اور اس مشکل وقت میں ہمارے ساتھ ہوکر ہماری آواز بنیں۔ کیونکہ آج ہماری یہ مزاحمت، ہمارے مستقبل کو بچانے کو ضامن بن سکتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *