خیبر پختونخواہ مسلسل دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔
حکومت اور عسکری قیادت مکمل شواہد کے ساتھ واضح طور پر بتاچکے ہیں کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے اور اس حوالے سے افغان عبوری حکومت کو آگاہ بھی کیا گیا ہے مگر اس کے باوجود دراندازی رکنے کی بجائے حملوں میں شدت آرہی ہے ،مسلسل دہشت گردی کے واقعات رونماء ہورہے ہیں۔
گزشتہ چند روز میں صوبے کے مختلف اضلاع میں دہشت گردوں کے پولیس تھانوں اور چوکیوں پر حملوں میں 4 اہلکاروں سمیت 5 افراد شہید ہوئے جبکہ جوابی کارروائی میں 4 دہشت گرد مارے گئے۔
خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع پشاور، کرک، بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک ، جنوبی وزیرستان، مہمند اور خیبر میں پولیس تھانوں، سیاسی اور مذہبی شخصیات پر درجن بھر سے زائد حملے ہوئے۔
پولیس کے مطابق دہشت گرد حملوں میں پولیس کے 4 اہلکار شہید ہوئے جبکہ 3 زخمی ہوئے اور جوابی حملوں میں 4 دہشت گرد مارے گئے۔
کرک میں دہشت گرد حملے میں ایک پولیس اور ایک سیکورٹی گارڈ شہید جبکہ ایف سی کا جوان زخمی ہوا۔
مفتی منیر شاکر بم دھماکے میں جاں بحق ہوئے تھے جبکہ مہمند میں ممبر قومی اسمبلی پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا تھا۔
سرحد پار دراندازی سے خطے میں ایک بار پھر دہشت گردی کی لہر کو بڑھاوا دیا جارہا ہے جو خطے میں عدم استحکام کا باعث بن رہا ہے پاکستان نے افغانستان کے ساتھ ہمیشہ دوستانہ تعلقات اور امن کیلئے مثبت کردار ادا کیا ہے۔
افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں ہے جن کی مہمان نوازی کی گئی مگر افسوس اس کے باوجود بعض افغان مہاجرین دہشت گردوں کی سہولت کاری کرتے آرہے ہیں۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور شہر سرخیوں میں رہنے کیلئے ایسے جملے میڈیا کے سامنے بولتے ہیں تاکہ وہ خبروں کی زینت بنے رہیں۔
گزشتہ روز علی امین گنڈا پور نے پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاتھا کہ وفاق نے افغان مہاجرین کو نکالنے پر بات نہیں کی، افغانیوں کو اس طرح کیسے بارڈر کے اس پار پھینک دوں؟
اگر افغانی پاکستان کی نیشنیلٹی لینا چاہتے ہیں تو دے دیں۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان ہمارا پڑوسی ہے اور رہے گا، زبردستی افغان مہاجرین کو نہیں نکالنا چاہیے، پہلے بھی افغان مہاجرین کے ساتھ جو پالیسی اپنائی گئی وہ انسانی حقوق کے منافی تھی، افغانستان سے بات چیت کیلئے کے پی حکومت نے وفاق کو ٹی او آرز بھیجے تھے مگر دو ماہ گزرنے کے باوجود جواب نہیں آیا۔
بہرحال افغانستان کی عبوری حکومت سمیت کسی بھی پڑوسی ملک کے ساتھ بات چیت سمیت اہم امور کا مینڈیٹ وفاق کے پاس ہے، صوبوں کے اختیارات میں یہ شامل نہیں جبکہ شہریت دینے کیلئے الگ قوانین موجود ہیں۔
امیگریشن قوانین کے تحت مہاجرین کے کیسز کی شنوائی ہوتی ہے اس میں تمام پہلوؤں کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے کہ متاثرہ مہاجر کیونکر پناہ لینا چاہتا ہے۔
جنگ زدہ، معاشی بدحالی یا پھر اس کی جان کو اپنے ملک میں خطرہ لاحق ہے۔
ان خاص تین وجوہات کی بنیاد پر باقاعدہ کیس سالہا سال چلتے ہیں، مہاجر کارڈ کا اجراء کیا جاتا ہے مگر شہریت پلیٹ میں رکھ کر امریکہ،کینیڈا، مغربی و مشرقی یورپ سمیت کوئی بھی ملک نہیں دیتا ہر ملک کے اپنے امیگریشن قوانین ہوتے ہیں اور بہت زیادہ سخت ہی ہوتے ہیں جبکہ پاکستان خود معاشی حوالے سے متاثرہ ملک ہے، مہاجرین کو رکھنا تک مشکل ہے شہریت دینے کا تو تصور بھی نہیں کیا جاسکتا لہذا علی امین گنڈا پور کی لایعنی باتیں صرف توجہ حاصل کرنے کے لیے ہیں ، اس کے سواکچھ نہیں۔
پاکستان امن چاہتا ہے افغان عبوری حکومت دراندازی روکنے کیلئے واضح اقدامات کرے تو بات چیت کے ذریعے بعض مسائل کا حل نکالا جاسکتا ہے۔
علی امین گنڈا پور کا افغان مہاجرین کو پاکستانی شہریت دینے کا بیان، ریاستی قوانین سے ناواقفیت یا سیاسی توجہ حاصل کرنے کاشوق!

وقتِ اشاعت : 9 hours پہلے
Leave a Reply