ملک میں دہشت گردانہ حملے دوبارہ بڑھنے سے امن و امان کی صورتحال بگڑ رہی ہے ۔
دہشتگردی کی حالیہ لہر کے دوران خیبر پختونخوا اور بلوچستان زیادہ متاثر ہیں۔
دہشت گردی کی کارروائیوں کے پیچھے دشمن ملک ملوث ہیں جو پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری سے معیشت مستحکم ہورہی ہے دوست سمیت دیگر ممالک پاکستان میں سرمایہ کاری کررہے ہیں مشکل حالات سے پاکستان نکل رہا ہے جو دشمن ممالک کو برداشت نہیں ہورہا۔
بہرحال ملکی قومی سلامتی کے حوالے سے قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی اجلاس میں اہم فیصلے کئے گئے۔
گزشتہ روز اسپیکر قومی اسمبلی کی سربراہی میں ہونے والے قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کا اعلامیہ جاری کیا گیا۔
اجلاس میں وزیراعظم، پارلیمانی کمیٹی کے ارکان، سیاسی قائدین،آرمی چیف،اہم دفاعی وحکومتی شخصیات اور سیکیورٹی اداروں کے اعلیٰ حکام شریک ہوئے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے اجلاس کا اعلامیہ پڑھ کر سنایا۔
اعلامیے کے مطابق قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی نے دہشت گردی کی حالیہ کارروائیوں کی شدید مذمت کی ہے۔
قومی سیاسی وعسکری قیادت نے دہشت گردوں اور خوارج کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اعلامیہ کے مطابق قومی سیاسی وعسکری قیادت کا دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
کمیٹی نے قومی سلامتی کی موجودہ صورتحال اور دہشت گردی کی حالیہ لہر پر تفصیلی غورکیا۔
افغانستان میں شدت پسند دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ ہر قسم کی ہمدردی کے اظہار کی مذمت کی گئی۔
دہشت گردی کے چیلنجزپرقابو پانے کے لیے قومی وضروری قوانین نافذ کرنے اوراداروں کی بھرپورحمایت پر زور دیا گیا۔
دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا خاتمہ ممکن بنانے کے لیے مربوط اور منظم حکمت عملی اپنانا ہوگی۔
دہشت گردی کی حمایت کرنے والے کسی بھی گروہ کے خلاف مؤثر کارروائی کی جائیگی۔
کمیٹی نے سوشل میڈیا پردہشت گردی کے بیانیے کوفروغ دینے والوں کیخلاف سخت کارروائی کی سفارش کی۔
اعلامیے کے مطابق کمیٹی نے کہا کہ پاکستانی اداروں کو قانون نافذ کرنے اور قومی سلامتی کے معاملات میں مکمل آزادی ہونی چاہیے۔
کمیٹی نے اس بات پرزور دیا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی مزید بہتربنانے کے لیے وسائل فراہم کیے جائیں۔
کمیٹی نے حزب اختلاف کے بعض ارکان کی عدم شرکت پر افسوس کااظہار کیا اور کہا کہ مشاورت کا عمل جاری رہیگا۔
پارلیمانی کمیٹی کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کسی بھی ادارے، فرد یا گروہ کو کمزوری نہیں دکھانی چاہیے، ایک مضبوط اور مربوط حکمت عملی کے تحت قومی سلامتی کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے اراکین اجلاس میں شریک نہیں ہوئے مگر وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈاپور نے اجلاس میں اپنے صوبے کی نمائندگی کی۔ اس سے قبل پی ٹی آئی نے اجلاس میں شرکت کا فیصلہ کیا تھا اور نام بھی بھجوا دیے تھے پھر اچانک شرط لگادی کہ پہلے بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کروائی جائے اور ایک نئی شرط بھی لگادی کہ بانی پی ٹی آئی کو اجلاس کے لیے پیرول پر رہا کیا جائے۔ بہرحال اپوزیشن کو اس اہم فورم میں شرکت کرنی چاہئے تھی کیونکہ دہشت گردی کا مسئلہ قومی ہے جسے مشترکہ کاوشوں سے حل کیا جاسکتا ہے جن معاملات پر تحفظات اور خدشات ہیں اسی فورم پر بیٹھ کر ان کی نشان دہی کی جاسکتی ہے ۔دہشت گردی کو کیسے ملک سے ختم کیا جاسکتا ہے اس کے لیے قومی یک جہتی کے فروغ کیلئے کیا لائحہ عمل اپنانا ہوگا ایسے متعدد نکات فورم پر زیر بحث لائے جاسکتے تھے اس سے دنیا میں یک جہتی کا واضح پیغام بھی جاتا جبکہ ملکی سیاسی قوتوں کے ایک فورم پر بیٹھنے سے قیام امن، ملکی سلامتی ،ترقی کیلئے مزید مفید رائے بھی سامنے آتے ۔بائیکاٹ اور انا کی سیاست ملکی موجودہ حالات کے متقاضی نہیں۔ بہرحال قومی سلامتی کمیٹی میں دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اظہار کیاگیا ۔ امید ہے کہ دیرپا امن کیلئے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جائینگے جس کے مستقبل میں مثبت نتائج برآمد ہونگے۔
Leave a Reply