|

وقتِ اشاعت :   6 hours پہلے

تربت:  بلوچ اسٹوڈنٹس فرنٹ کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے بلوچ عوام استعماری طاقت کے ہاتھوں ظلم و جبر اور استحصال کا شکار ہے۔

ماورائے عدالت گرفتاری اور جبری گمشدگیاں، مارو اور پھینکو پالیسی، ٹارگٹ کلنگز، ہراسمنٹ کا سلسلہ بدستور جاری ہے جہاں کوئی شخص خود محفوظ نہیں سمجھتا۔

ان مظالم کا شکار زیادہ تر بلوچ انٹیلیجنشیا، ڈاکٹرز اور س?یاسی کارکنان ہیں،

جس سے یہ بات واضح ہے کہ بلوچ دانشوروں، طلباء￿ اور س?یاسی کارکنوں کو جبری طور پر گرفتار کرکے لاپتہ کرنا مظلوم قوم کی آواز کو طاقت کے زریعے دبانے کی ایک ناکام کوشش ہے۔

انہوں نے کہا کہ ریاستی اداروں نے گھروں کی چادر و چار دیواری کی تقدس کو پامال کرتے ہوئے دیواریں پھلانگ کر گھروں میں داخل ہوتے ہیں اور سیاسی کارکنوں اور مزاحمت کاروں کو گھسیٹ کر جبری گمشدگی کا نشانہ بناتے ہیں۔

اسی سلسلے میں بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے رہنما بیبگر بلوچ اور ان کے بھائی، پی ایچ ڈی اسکالر اور گولڈ میڈلسٹ ڈاکٹر حمل بلوچ کو آج صبح سویرے سریاب روڈ سے جبراً لاپتہ کیا گیا ہے، جبکہ گزشتہ شب ڈاکٹر کالونی کوئٹہ سے بولان میڈیکل کالج کے وائس پرینسپل اور ماہرنفس?یات ڈاکٹر الیاس بلوچ کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ہے

جو کہ ایک تشویشناک عمل ہے جسکی شدید الفاظ میں مزمت کرتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ اب خواتین بھی ریاستی جبر و بربریت سے محفوظ نہیں رہیں۔

بلوچ خواتین رہنما سعیدہ فیصل بلوچ، ان کی بہن نازیہ بلوچ سمیت دیگر متعدد بلوچ نوجوانوں کو اس وقت جبراً لاپتہ کیا گیا جب وہ سول ہسپتال سے پانچ شہداء￿ کی میتیں لے جا رہے تھے۔ خواتین، جنہیں عزت و حرمت کی علامت سمجھا جاتا ہے،

کو اس طرح نشانہ بنانا ریاستی جبر کی انتہا ہے۔

بی ایس ایف کے مرکزی ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عالمی انسانی حقوق کے اداروں اور انسانیت کے علمبردار تنظیموں سے اپیل کی ہے کہ وہ بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے خلاف اقدامات اٹھاکر بلوچ قوم کو جبر و بربریت سے نجات دلانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *