|

وقتِ اشاعت :   1 day پہلے

کوئٹہ : پرامن مظاہرین پر بدترین تشدد، گرفتاریوں اور تین بلوچ نوجوانوں کو گولیوں سے چھلنی کرکے شہید کرنا بدترین فسطائیت ہے۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمیت تمام جبری لاپتہ افراد کو فالفور بازیاب کیا جائے۔

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے اپنی جاری کردہ بیان میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر بلوچ نوجوانوں کی اغوا نما گرفتاری کے بعد جبری گمشدگیوں پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں اس وقت ریاست کی جانب سے خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔

نہتے پرامن مظاہرین پر بے دریغ گولیوں کا استعمال کرکے تین بلوچ نوجوانوں کو شہید کرنا اور سینکڑوں مظاہرین کی گرفتاریوں کے بعد جبری گمشدگیاں ناقابل برداشت اور عالمی انسانی حقوق کے قوانین کی کھل عام خلاف ورزی ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران بلوچستان بھر سے سینکڑوں بلوچ نوجوانوں کو جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا جن میں ایک ہی قمبرانی فیملی کے آٹھ سے زائد نوجوان شامل ہیں۔

اس کے علاوہ کاسی قبرستان میں ریاستی ادارے تیرہ سے زائد افراد کی لاشیں بغیر کسی شناخت رات کی تاریکی میں دفنا کر چلے گئے۔

انسانی حقوق کی ان سنگین پامالیوں کے خلاف لاپتہ افراد کے لواحقین اور سیاسی کارکنان نے پرامن آواز اٹھانے کی کوشش کی جس کی پاداش میں ریاستی اداروں نے بی وائی سی کے مرکزی راہنما بیبگر بلوچ کو بھائی ڈاکٹر حمل سمیت لاپتہ کیا جو کہ ابھی تک منظرعام پر نہیں لائے گئے۔

اس کے ساتھ بولان میڈیکل کالج کے وائس پرنسپل ڈاکٹر الیاس بلوچ کو بھی جبری گمشدگی کا نشانہ بنا گیا۔

انسانی حقوق کے کارکن اور لاپتہ افراد کے لواحقین سعیدہ بلوچ کو بہن سمیت گرفتار کر لیا گیا۔ کوئٹہ بھر میں پولیس چھاپوں اور جبری گمشدگیوں کا قہرام برپا گیا گیا ہے۔

بی وائی سی کی جانب سے ان تمام جبر و ظلم کے خلاف کل کوئٹہ میں پرامن احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس پر ریاستی فورسز نے دھاوا بول کر بلوچ عوام پر سیدھی گولیاں چلائی اور قتل عام کیا۔

گولیاں لگنے سے تین بلوچ نوجوان شہید ہوئے ، بیس سے زائد زخمی ہوئے، سینکڑوں کی تعداد میں گرفتار کیے گئے جن کا ابھی تک کوئی معلومات نہیں دیا جارہا ہے۔

شہدا کے لواحقین اور بی وائی سی کی جانب سے لاشوں کے ساتھ رات بھر سریاب برما ہوٹل کے مقام پر دھرنا دیا گیا۔

لیکن ریاست نے اپنی پرتشدانہ سوچ پر عمل پیرا ہوکر بلوچ نسل کشی کی تمام حدیں پار کی۔ صبح سحری کے وقت ریاستی فورسز نے احتجاجی دھرنے پر بندوق بردار نفری کے ساتھ حملہ کیا۔ لاشوں کو گھسیٹا گیا، لواحقین پر بدترین تشدد کیا گیا اور کئی نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا۔

اس کے ساتھ بی وائی کے مرکزی آرگنائز اور انسانی حقوق کے نامور کارکن ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو اغوا کیا گیا۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو ریاستی فورسز نے اغوا نما گرفتاری کے بعد جبری طور پر لاپتہ کردیا یے جس کے بارے میں ابھی تک کوئی معلومات نہیں ہے۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ پچھلے کئی سالوں سے بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بلوچ نسل کشی کے خلاف پرامن جدوجہد کررہی ہیں۔

اس وقت کوئٹہ بھر میں انٹرنیٹ اور موبائل نیٹ ورک بند ہونے کے سبب شدید انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں میڈیا سے اوجھل ہیں۔ ہم ریاستی اداروں سے کہنا چاہتے ہیں کہ طاقت کی زور پر آپ بلوچستان کے آوازوں کو دبا نہیں سکتے بلکہ یہ مزید توانا ہوکر شدت کے ساتھ ابھریں گے۔

پرامن سیاسی کارکنان پر کریک ڈاون اور سیاسی راہوں کو بند کرنے سے بلوچستان میں آپ کی طاقت برقرار نہیں رہ سکتی ہے۔

خطے بھر کے تمام مظلوم اقوام، انسانی حقوق کے عالمی اداروں اور اقوام عالم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی جبری گمشدگی کا نوٹس کے کر ان کی زندگی کو محفوظ بنانے کیلیے آگئے آئیں اور بلوچستان بھر میں جاری ریاستی مظالم پر لب کشائی کرکے اپنا کردار ادا کریں۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *