امریکی ریاست کنیکٹیکٹ کے شہر واٹربری میں اسلامو فوبیا کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا ہے، جہاں ساتویں جماعت کی 2 مسلم طالبات پر تشدد کیا گیا اور ان کے حجاب زبردستی اتار دیے گئے۔
حملہ کرنے والے ’گروپ‘ کے مبینہ رکن ہونے کے الزام میں 12 سالہ طالبہ کو جووینائل کورٹ میں نفرت پر مبنی جرائم کے الزام کا سامنا ہے۔
جھگڑے میں مبینہ طور پر ملوث لڑکی پر عدالتی سمن کے ذریعے تعصب کی بنیاد پر دھمکانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
واٹربری اسٹیٹ کے اٹارنی آفس، پولیس اور شہری انتظامیہ حکام کی جانب سے جاری مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ تفتیش کاروں نے اس بات کا تعین کیا ہے کہ یہ جھگڑا مذہب یا نسل کی بنیاد پر ہوا، جو نفرت پر مبنی جرائم کی قانونی تعریف پر پورا اترتا ہے۔
کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز کے کنیکٹیکٹ چیپٹر کے چیئرمین فرحان میمن کے مطابق 13 سالہ جڑواں لڑکیاں لاکر روم کے پاس گئیں تو انہیں 2 لڑکیوں کی جانب سے لاتیں اور گھونسے مارے گئے، ان کے حجاب اتار کر پھینک دیے گئے۔
فرحان میمن نے بتایا کہ متاثرہ طالبات کو ان کی 2 ہم جماعتوں نے مار پیٹ کا نشانہ بنایا تھا، ’ایک لڑکی کے چہرے پر زخم تھے اور اس کی بہن کی گردن پر چوت لگی تھی۔
انہوں نے ’سی این این‘ کو بتایا کہ ایک متاثرہ مسلمان لڑکی کی گردن میں کچھ کھنچاؤ محسوس ہوا، جس کے نتیجے میں اس کی گردن پر خراش آئی، لڑکیوں کے والد انہیں ہسپتال لے گئے، جہاں ڈاکٹروں دستاویزات پر چہرے، ناک اور گردن پر زخموں اور خراشوں کی تفصیلات درج کیں۔
شہری انتطامیہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اس واقعے میں ملوث ایک اور طالبہ کو گرفتاری کے متبادل کے طور پر ’نوجوانوں کی توجہ ہٹانے کے پروگرام‘ میں شامل کیا گیا ہے۔
یہ واضح نہیں ہے کہ آیا دونوں نابالغ ملزمان جووینائل کورٹ میں پیش ہوئی ہیں، یا ان کی قانونی نمائندگی ہے۔
واٹربری پبلک اسکولز کے عبوری سپرنٹنڈنٹ ڈیرن شوارٹز نے ایک بیان میں کہا کہ یہ واقعہ ہمارے اس عزم کا اعادہ کرنے کا ایک موقع ہے کہ ہمارے طلبا محفوظ رہیں اور ایک دوسرے کا احترام کریں۔
یہ واقعہ مسلمانون کے مقدس مہینے رمضان المبارک کے دوران ایک ایسے وقت میں پیش آیا ہے، جب مسلمانوں کی جانب سے امریکا میں عرب مخالف اور اسلاموفوبیا یا تعصب کے ریکارڈ واقعات رپورٹ کیے جارہے ہیں۔
Leave a Reply