|

وقتِ اشاعت :   10 hours پہلے

سندھ حکومت نے کراچی میں بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے رہنما سمی دین بلوچ سمیت 5 افراد کو مینٹیننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) کے تحت 30 روز کے لیے حراست میں لے لیا۔

کراچی پولیس نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرنے پر سمی دین بلوچ اور متعدد دیگر افراد کو حراست میں لے لیا اور بی وائی سی کی قیادت کی حالیہ گرفتاریوں اور کوئٹہ دھرنے پر کریک ڈاؤن کے خلاف احتجاج کی کوشش ناکام بنادی۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اپنے اہم رہنماؤں بشمول ڈاکٹر مہرنگ بلوچ کی ’غیر قانونی حراست‘ کے خلاف کراچی پریس کلب پر احتجاج کا اعلان کیا تھا، جنہیں ہفتے کو کوئٹہ میں ان کے احتجاجی کیمپ سے 16 دیگر کارکنوں کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا۔

کراچی میں آرٹلری میدان پولیس نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر سمی اور 5 دیگر زیر حراست کارکنوں کے خلاف دفعہ 188 (سرکاری ملازم کے حکم کی نافرمانی) کے تحت مقدمہ درج کیا۔

سندھ حکومت کے محکمہ داخلہ کی جانب سے منگل کو جاری کیے گئے حکم نامے کے مطابق، جس کی ایک کاپی ڈان ڈاٹ کام کے پاس موجود ہے، آئی جی سندھ نے سمی، رزاق علی، عبدالوہاب بلوچ، شہداد اور سلطان کے لیے 30 دن کی حراست کی مدت کی سفارش کی تھی۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ یہ پانچوں افراد کراچی میں سڑکیں بند کرنے اور دھرنے دینے کے لیے عوام کو اکسا رہے ہیں جس سے امن و امان میں خلل پڑ سکتا ہے اور امن و امان کے سنگین مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پانچ افراد کی موجودگی سے عوامی سلامتی کو شدید خطرہ لاحق ہوسکتا ہے اور یہ امن و امان کی خلاف ورزی کا سبب بن سکتا ہے۔

حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ سندھ حکومت کے پاس اس بات پر یقین کرنے کی کافی وجوہات ہیں کہ پانچوں افراد کو گرفتاری کی تاریخ سے 30 دن کی مدت کے لیے گرفتار کیا جائے اور حراست میں رکھا جائے۔

پیر کے روز حراست میں لیے گئے دیگر مظاہرین کی شناخت عبدالوہاب، مصطفیٰ علی، شہزاد رب، حمزہ افتخار اور سلطان ہمال کے طور پر کی گئی ہے۔

ایک پولیس اہلکار کی شکایت پر درج ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ تقریبا 35 سے 40 مرد و خواتین فوارہ چوک پہنچے اور ریڈ زون میں داخل ہونے کی کوشش کی، شکایت کنندہ نے کہا کہ پولیس نے انہیں روکنے کی کوشش کی ، لیکن مظاہرین مبینہ طور پر حساس علاقے میں زبردستی داخل ہوئے۔

پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے سمی، عبدالوہاب اور 4 دیگر نامزد افراد کو حراست میں لے لیا جبکہ دیگر فرار ہوگئے۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *