کوئٹہ: بلوچستان میں دو اہم قومی شاہراہوں کی گذشتہ 10روز سے بندش نے عوام، تاجروں اور ٹرانسپورٹرز کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔ ٹرانسپورٹرز اور کاروباری طبقے کو یومیہ کروڑوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
کوئٹہ چیمبر آف کامرس کے صدر محمد ایوب مریانی کا کہنا ہے کہ شاہراہوں کی بندش کے باعث تاجروں کو صرف کنٹینرز کے ڈیمریج چارجز کی مد میں روزانہ ایک لاکھ 20 ہزار امریکی ڈالر(تقریبا تین کروڑ 36لاکھ روپے)کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے، جبکہ دیگر مالی نقصانات اس کے علاوہ ہیں۔
بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی)کی جانب سے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی دیگر خواتین رہنماں کی گرفتاری کے خلاف 28مارچ کو وڈھ سے کوئٹہ کی جانب لانگ مارچ کا آغاز کیا گیا تھا، تاہم حکومت نے مظاہرین کو کوئٹہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔بی این پی نے مستونگ میں لکپاس کے مقام پر دو بڑی اہم شاہراہوں کے سنگم پر دھرنا دیا ہے۔
حکومت نے بھی لانگ مارچ کے شرکا کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے لکپاس ٹنل میں کنٹینرز کھڑے کرکے اور خندقیں کھود کر راستے بند کر رکھے ہیں۔
اس احتجاجی دھرنے اور حکومتی رکاوٹوں کی وجہ سے دو اہم شاہراہیں 28مارچ کی رات سے بند ہیں جن میں پاکستان کو ایران سے ملانے والی شاہراہ این 40اور کوئٹہ کو ملک کے سب سے بڑے اور تجارتی شہر کراچی سے ملانے والی شاہراہ این 25شامل ہیں۔
کوئٹہ چیمبر آف کامرس کے صدر ایوب مریانی نے بتایا کہ این 40شاہراہ کی بندش سے ایران کی سرحد پر 1200سے زائد مال بردار گاڑیاں پھنسی ہوئی ہیں جن میں 847باؤزرز بھی شامل ہیں، جو ایل پی جی اور پیٹرولیم مصنوعات لے کر پاکستان آ رہی تھیں۔
ہر گاڑی پر روزانہ تقریبا 100ڈالر کے کنٹینر ڈیمریج چارجز عائد ہو رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ کوئٹہ میں این ایل سی ڈرائی پورٹ پر ایران جانے والی آلو اور چاول سے بھری 200گاڑیاں بھی کھڑی ہیں جن میں موجود سامان جلد خراب ہونے والا ہے۔
ان اشیا کی مقامی مارکیٹ میں فروخت بھی ممکن نہیں کیونکہ طلب نہ ہونے کی وجہ سے یہاں قیمتیں بہت کم ہیں۔
تاجر رہنما ایوب مریانی کا کہنا ہے کہ شاہراہوں کی بندش نہ صرف مقامی بلکہ ملکی اور علاقائی تجارت پر بھی منفی اثر ڈال رہی ہے۔
لاکھوں افراد کا روزگار متاثر ہو رہا ہے جبکہ تاجروں کو بھاری مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت فوری طور پر راستے کھلوائے اور جاری احتجاج کا پرامن حل نکالے۔
بلوچستان کی سب سے بڑی ٹرانسپورٹ کمپنی کے مالک حاجی مظفر علی لہڑی کا کہنا ہے کہ بدامنی اور راستوں کی بندش سے ٹرانسپورٹ کا شعبہ شدید بحران کا شکار ہے۔
ان کے مطابق گذشتہ تین ماہ سے ہمارا کاروبار متاثر ہے اور گذشتہ 10دنوں سے تو مکمل طور پر بند ہے۔ حاجی مظفر علی لہڑی کا کہنا تھا کہ مستونگ سے گزرنے والا اور کوئٹہ کو کراچی سے ملانے والا راستہ سب سے مختصر اور اہم ہے۔
یہاں سے ہماری روزانہ 12سے 15گاڑیاں چلتی تھیں لیکن اب صرف دو سے تین گاڑیاں سبی، جیکب آباد، سکھر اور اندرون سندھ سے گزرنے والے متبادل راستے سے جا رہی ہیں جو طویل اور مہنگا پڑتا ہے۔
اس روٹ پر 200لیٹر اضافی ڈیزل استعمال ہوتا ہے اور کرایہ بھی تقریبا دو ہزار روپے بڑھ گیا ہے، اس لیے مسافر اس روٹ پر جانے سے گریز کر رہے ہیں۔آل کوئٹہ تفتان بس یونین کے صدر حاجی ملک شاہ جمالدینی نے بتایا کہ کوئٹہ سے نوشکی، دالبندین، نوکنڈی، تفتان، ماشکیل اور خاران کے لیے روزانہ 100سے زائد بسیں اور ویگنیں چلتی تھیں جو اب گذشتہ 10دنوں سے کھڑی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بیشتر بس مالکان نے قرض لے کر تین سے ساڑھے تین کروڑ روپے کی ایک ایک بس خریدی ہے اور انہیں ماہانہ پانچ سے آٹھ لاکھ روپے تک کی قسطیں ادا کرنی ہوتی ہیں۔
اس کے علاوہ بس اڈوں کے کرایے، گاڑیوں کی مرمت اور عملے کی تنخواہیں بھی اب ٹرانسپورٹرز پر بوجھ بن گئی ہیں۔
ہم جس روٹ پر ٹرانسپورٹ چلاتے ہیں وہ دور دراز علاقے ہیں جہاں سے لوگ علاج معالجے، تعلیم اور دوسری بنیادی ضروریات کے لیے کوئٹہ آتے ہیں لیکن گذشتہ 10دنوں سے مریض بھی سفر نہیں کر پا رہے جس سے عام مسافر سخت مشکلات کا شکار ہیں۔
Leave a Reply