لاہور: کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز(سی پی این ای) کی پنجاب کمیٹی کا خصوصی اجلاس چیئرمین ایاز خان کی زیرصدارت مقامی کلب میں ہوا جس میں صوبہ پنجاب میں آزادی صحافت اور اخبارات و جرائد کو درپیش صورتحال پر تفصیلی غور و غوض کیا گیا۔
اجلاس میں شرکا نے وزارت اطلاعات حکومت پنجاب کی جانب سے صحافتی اداروں کو اشتہارات دینیاور واجبات کی ادائیگی کے نئے اور ڈیجیٹیل طریقہ کار پر اظہار اطمینان کیا گیا، اجلاس کے دوران صوبہ بلوچستان کے حالات کے پیش نظر وہاں صحافت کرنے والوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے تجویز پیش کی گئی کہ ماضی کی طرح اب بھی سی پی این ای کے پلیٹ فارم کو بلوچستان کی حالیہ صورتحال جیسے قومی مسائل کے حل کے تلاش کے لئے استعمال کیا جائے۔
چیئرمین ایاز خان کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں سی پی این سی کے صدر ارشاد احمد عارف، سی پی این ای پنجاب کمیٹی کے ڈپٹی چیئرمین بابر نظامی، جوائنٹ سیکرٹری پنجاب وقاص طارق، اراکین ذوالفقار احمد راحت، احمد شفیق، عرفان اطہر، زبیر محمود، شہزاد امین، اسلم میاں، فہد صفدر اور ارشد روحانی شریک ہوئے۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین ایاز خان نے کہا کہ پنجاب میں آزادی صحافت کی صورتحال پر صرف ہنسا ہی جا سکتا ہے کیونکہ اس حوالے سے حالات بہت مشکل ہیں اور آئین و قانون کی بات بے معنی سی ہو کر رہ گئی ہے۔ ریاست کو اس وقت سوشل میڈیا سے خطرہ محسوس ہو رہا ہے لیکن حکومت مین سٹریم میڈیا پر خبروں کو کنٹرول کر کے خود ہی سوشل میڈیا کو مضبوط کر رہی ہے۔
بلوچستان کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعلی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے دور میں صوبہ بلوچستان کے حالات بہت بہتر تھے۔
سی پی این ای کے صدر ارشاد احمد عارف نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جن ممالک میں میڈیا کنٹرولڈ ہے یا وہاں بنیادی حقوق میسر نہیں ہوتے وہاں کی حکومتیں اپنے شہریوں کو بنیادی اشیائے ضروریہ انتہائی ارزاں قیمتوں پر فراہم کر کے انہیں خوشحال رکھتی ہیں جبکہ ہمارے ہاں رگڑا بھی لگایا جاتا ہے اور آزادی بھی سلب کی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود میڈیا اپنی جدوجہد جاری رکھے گا۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے احمد شفیق نے کہا کہ بلوچستان کے حوالے سے حالات دیکھ کر ہمارا دل دکھتا ہے۔
وہاں گذشتہ 70 سالوں میں اتنے زیادہ مالی وسائل فراہم کئے گئے ہیں کہ فی کس ایک کروڑ روپے وہاں کے شہریوں پر بظاہر خرچ کئے گئے ہیں۔
وہاں کے لوگ ریاست کوتو برا بھلا کہہ رہے ہیں لیکن وہاں کے سرداروں کا لگژری لائف سٹائل کو دیکھیں۔
بسوں، ٹرینوں سے پنجابیوں کو نکال کر مارا جا رہا ہے لیکن ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ نے اس کی مذمت میں ایک لفظ نہیں بولا۔ کسی بھی پاکستانی کو شناخت کی بنیادپر قتل نہیں کیا جانا چاہیئے۔
عرفان اطہر قاضی نے کہا کہ بلوچستان کی بچیاں دستکاری کر کے کراچی میں انہیں بمشکل بیچ کر اپنا گزر بسر کرتی ہیں۔
ان کا بجا شکوہ ہے کہ انہیں انٹرنیٹ کو سہولت میسر ہوتی تو وہ آن لائن اپنی پراڈکٹس بیچ سکتیں۔
سیاستدان صوبہ بلوچستان کے مسائل کے حل کے لئے اپنا کردار ادا کرتے رہیں
لیکن ہمیں بطور صحافی وہاں مفاہمت اور صلح کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے جیسے مجید نظامی اور حمید نظامی مرحوم ماضی میں اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ اس لئے اب وقت آگیاہے کہ سی پی این ای کے پلیٹ فارم کو صوبہ بلوچستان کے مسائل کے حل کے لئے استعمال کیا جائے کیونکہ ڈائیلاگ ہی اس معاملے کا واحد حل ہے۔
ذوالفقار راحت نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صوبہ بلوچستان کے قوم پرست رہنما حالات سے تنگ آ کر پیچھے ہٹے تو ڈاکٹر ماہرنگ کو جگہ ملی اور وہ لیڈر بن گئیں۔
موجودہ حالات کے باوجود ہمیں مثبت رہنا ہو گا اور مایوس بالکل نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ اداروں نے وہاں بہت کام کر رکھا ہے اور انہیں وہاں کیحالات کا ہم سے بہت بہتر علم ہے کیونکہ وہ وہاں کے زمینی حقائق کو ہم سے بہت بہتر جانتے ہیں۔
وقاص طارق نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پیپرا رولز میں ترامیم پر حکومت کی جانب سے ہم سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔
ایس پی ایل کیمعاملے پر واجبات کی ادائیگی کے معاملے کو بہت بہتر کر دیا گیا ہے لیکن آئی پی ایل کا معاملہ لٹکا ہوا ہے جس کی وجہ سے ریجنل اخبارات و جرائد کو مشکلات کا سامنا ہے۔
صوبائی سیکرٹری اطلاعات سید طاہر رضا ہمدانی نے کہا کہ جن اخبارات کو واجبات ادا کئے جا رہے ہیں، ان سے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کے سرٹیفکیٹ لئے جا رہے ہیں۔
ڈیجیٹل میڈیا کے حوالے سے وفاق کی پالیسی کو اپنایا جا رہا ہے لیکن سی پی این ای سمیت کوئی بھی صحافتی ادارہ اپنی تجاویز دیتا ہے تو اس خوش آمدید کہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میڈیا کے لئے اس حوالے سے بہترین دور ہے کہ موجودہ صوبائی وزیر اطلاعات عظمی زاہد بخاری صحافی برادری کی بہترین وکیل اور معاون ہیں جو صحافیوں کی بہتری اور ان کے مسائل کے حل کے لئے ہر وقت کوشاں رہتی ہیں۔ ان کامزید کہنا تھا کہ جن جن صحافتی اداروں نے اپنے آن لائن اکاونٹس کی تفصیلات ڈی جی پی آر میں جمع کروا دی ہیں، انہیں ڈیجیٹل ادائیگیوں میں کوئی مسئلہ نہیں آ رہا۔ باقی ادارے بھی جلد اپنے آن لائن اکاونٹس کی تفصیلات جمع کروا دیں۔
ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز غلام صغیر شاہد نے کہاکہ حکومت کی جانب سے پیپرا رولز میں کچھ ترامیم ہوئی ہیں جس کی وجہ اشتہارات اور واجبات کی ادائیگی میں کچھ مسائل آ رہے ہیں لیکن چیف سیکرٹری پنجاب کی بیرون ملک سے واپسی پر اجلاس میں معاملات حل کر لئے جائیں گے۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ایڈورٹائزنگ کا مجموعی بجٹ جسے بڑھا کر 2 ارب روپے کر دیا گیا ، کو 7 ارب تک مزید بڑھایا جائے جس سے اخبارات، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز شامل ہیں۔
سوشل میڈیا کے حوالے حکومتی پالیسی ڈی جی پی آر کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ اخبارات وغیرہ کے سوشل میڈیا پیجز پر ملینز کے حساب سے سبسکرائبرز موجود ہوتے ہیں لیکن ان کی پوسٹ پر ویوز صرف چند ایک ہوتے ہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے سبسکرائبرز قدرتی نہیں بلکہ مصنوعی طریقے سے بنائے گئے ہیں۔
اجلاس کے دوران حکومت کی جانب سے صحافتی اداروں کو ڈیجیٹل طریقے سے آن لائن ادائیگیوں کے نئے اور بہتر طریقہ کار پر مکمل اطمینان کا اظہار کیا گیا اور تجویز دی گئی کہ آن لائن پیمنٹ کے ساتھ ایک میسج کیذریعے یہ آگاہی دینے کا سلسلہ بھی شروع کیا جائے کہ کن اشتہارات کی مد میں کتنی کتنی ادائیگی کی گئی ہے جس پر ڈی جی پی آر نے کہا کہ پہلے ہی ایسا شروع کر دیا گیا ہے۔
اجلاس کے دوران روزنامہ غریب فیصل آباد کے ایڈیٹر تنویر شوکت کی اہلیہ، سیکرٹری اطلاعات سی پی این ای ضیا تنولی کی ممانی اور تجارتی رہبر فیصل آباد کے پبلشر عتیق الرحمان کے انتقال پر فاتحہ خوانی اور دعائے مغفرت بھی کی گئی۔
چیئرمین ایاز خان کی ہدایت پر جوائنٹ سیکرٹری سی پی این ای پنجاب وقاص طارق کی سربراہی میں 3 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی جو ڈائریکٹر جنرل پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ سے ملاقات کرے گی۔
Leave a Reply