بیرونی ممالک میں پاکستانی بھکاریوں کی پکڑ دھکڑکی خبروں نے ملک کی ساکھ کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔ اس بات سے قطعاً انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اب بیشتر ممالک کی جانب سے پاکستانیوں کیلئے ویزے کی پالیسی سخت کردی گئی ہے جس سے نوجوان طبقہ سمیت دیگر متاثر ہورہاہے۔
نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اعلیٰ تعلیم اور باعزت روزگار کے حصول کیلئے بیرونی ممالک جانا چاہتے ہیں مگر سخت ویزہ پالیسی ان کیلئے مشکلات کا سبب بن رہی ہے جس کی وجہ پاکستانی بھکاری ہیں۔
پیشہ ور بھکاریوں کے پیچھے یقینا ایک بڑا نیٹ ورک کام کررہا ہے چونکہ بھکاری وزٹ اور ورکنگ ویزے پرسفر کرتے ہیں ان کی تمام تر دستاویزات جو ویزہ کے حصول کیلئے ضروری ہوتے ہیں ان کی تیاری پر اخراجات بہت زیادہ ہوتے ہیں جو ان کے سرپرست مافیازپوری کرکے ان بھکاریوں کو بیرونی ممالک بھیجنے کا بندوبست کرتے ہیں ۔ بہرحال یہ بھکاری دنیا بھر میں پاکستان کی سبکی کا باعث بن رہے ہیں۔
خلیجی ممالک بالخصوص سعودی عرب میں گرفتار کئے جانے والے 90 فیصد بھکاریوں کا تعلق پاکستان سے ہے۔
یہ ہوشربا انکشاف گزشتہ دنوں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سمندر پار پاکستانیوں کے اجلاس میں سامنے آیا ۔
سیکریٹری اوورسیز ذوالفقار حیدر نے اجلاس میں شریک حکام کو مزید حیرت زدہ کردیا کہ مسجد الحرام اور مسجد نبوی کی حدود سے گرفتار کئے جانے والے اکثر پاکستانی بھکاری جیب کترے تھے جو عازمین کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے پکڑے گئے۔
سیکریٹری اوورسیز کے مطابق صرف رمضان المبارک میں سعودی عرب کی پولیس نے 202 بھکاریوں جن میں 90 خواتین بھی شامل تھیں، کو گرفتار کرکے پاکستان ڈی پورٹ کیا جو عمرہ کے ویزے پر سعودی عرب گئے تھے اور زیارات کے مقامات پر بھیک مانگنے اور جیب کاٹنے میں ملوث تھے۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ملکوں سے نکالے گئے پاکستانی بھکاریوں کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات چلائے جائیں گے۔
حکومتی فیصلے کے تحت جلد ہی انسداد دہشت گردی ایکٹ میں نئی قانونی ترامیم متعارف کرائی جائیں گی، حکومت نے یہ اصولی فیصلہ خلیجی ملکوں میں پاکستان کے قومی وقار کو نقصان پہنچانے والے پاکستانی بھکاریوں اور غیر قانونی امیگریشن روکنے کیلئے کیا ہے۔ حالیہ عرصے میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ملکوں نے حکومت کو شکایت کی تھی کہ پاکستان سے بھکاریوں کے خاندان ان ملکوں میں منتقل ہو رہے ہیں اور وہ ان ملکوں میں بھیک مانگتے ہیں جو سنگین جرم تصور کیا جاتا ہے۔
دوسری جانب ملائیشیاء سے بھی 3 ماہ کے دوران 26 خواتین سمیت 41 بھکاریوں کو ڈی پورٹ کیا جا چکا ہے جن کے خلاف ایف آئی اے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل کراچی میں انکوائری نمبر 304/25 درج کرکے تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ ایف آئی اے ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں اے ایچ ٹی سی لاہور میں بھی 3 کی ویری فکیشن اور 6 انکوائریز درج کی گئیں تاہم کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔
3 ماہ کے دوران ملائیشیا سے ڈی پورٹ بھکاریوں میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے۔ ان بھکاریوں میں سے 16 کا تعلق کشمور سے ہے جبکہ دیگر رحیم یار خان، فیصل آباد صادق آباد، لاہور اور دیگر علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
بہرحال حکومت کی جانب سے انسداد دہشت گردی ایکٹ میں نئی قانونی ترامیم کا فیصلہ خوش آئند ہے مگر بیرونی ممالک جانے والے بھکاریوں کے ساتھ ساتھ اندرون ملک بھکاریوں کے نیٹ ورکس کے خلاف بھی سخت ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔
ان کے خلاف بھرپور آپریشن کرنا چاہئے تاکہ اس شرمناک عمل کا تدارک ہوسکے جو دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی کا سبب بن رہے ہیں اور جودیگر شہریوں کے بیرونی ممالک جانے پر انتہائی منفی اثرات مرتب کرر ہے ہیں۔
Leave a Reply