اوستہ محمد: بلوچستان کے نصیر آباد میں اسٹیل مل کا انکشاف ہوا کہ ڈیرہ مراد جمالی میں 16ہزار ملازموں کی تنخواہیں چل رہے ہیں مل کا وجود ہی نہیں۔1982 میں اسٹیل مل کی منظوری ہوئی بینک سے بڑا قرضہ لیا گیا لیکن مل بنانے کے لیے۔
ذرائع تفصیلات کے مطابق ذرائع سے معلوم ہوا کہ ہمارے ملک کو کیوں مقروض کیا گیا ایسے بھی ظلم اس ملک سے اور صوبے اے ہوئے ہیں کہ1982 میں حکومت نے اسٹیل مل کے نام سے ڈیرہ مراد جمالی میں منظوری دی اور معبینہ طور پر کسی مالیاتی ادارے سے قرضہ لیکر ڈیرہ مراد کے جنوب میں ان کی تعمیراتی کام جو ابھی تک صرف پلر لگے ہوئے ہیں
لیکن کام نہیں ہوا معبینہ طور پر جو قرض لیا گیا وہ بھی ڈوب گیا لیکن ذرائع کے مطابق اس اسٹیل مل میں 16ہزار ملازم بھرتھی بھی ہوئے جن کی تنخواہیں چل رہی ہیں جس کا بوجھ ملک کے خزانے پر پڑ رہا ہے ۔
اگر واقعی یہ حقیقت ہے تو یہ نا انصافی ملک اور صوبے سے کیوں ہو رہی ہے اس کی فوری ادارے تحقیقات کریں ملک کو خسارے سے بچائیں جبکہ اس قسم کے اسٹیل مل کا کوئی وجود نہیں لیکن کاغزی کاروائی میں اکشاف ہو رہا ہے
Leave a Reply