کوئٹہ : پشتونخواملی عوامی پارٹی کے چیئرمین وتحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی محمود خان اچکزئی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت زر وزور اور بڑی طاقتور حلقوں کی سپورٹ سے اقتدار پر قابض ہے۔
جس بھونڈے انداز میں قومی اور بین الاقوامی مسائل کو ٹیکر کررہی ہے وہ راستے ہمیں بڑے خطرناک لگتے ہیں۔
افغانستان بحیثیت ایک ریاست اور افغان کڈوال عوام علیحدہ یہ ایسے مسائل ہیں پتہ نہیں ہمارے حکمران کیا کررہے ہیں، اس پر میں نے صرف اپنی گلو خلاصی کرنی ہے تاریخ کے سامنے کم از کم کل کا مورخ دیکھ رہا کہ کسی نے تو کچھ کہا تھا۔
نہ میں نے کسی کو گالی دینی ہے کہ بُرا بلا کہنا ہے۔
سردار اختر جان مینگل نے اے پی سی بُلائی تھی بہ وجوہ ہم وہاں نہیں پہنچ سکے اُنہیں پتہ ہے، کچھ دن قبل میں ان کے دھرنے میں شرکت کے لیے گیا تھا تو وہاں ان کے کیمپ میں سرکاری وفد کے اراکین وہاں بیٹھے تھے، صادق سنجرانی بھی کوئی پیغام لائے تھے میں نے مذاق میں پوچھا کہ کی آپ بھی انقلابی بن گئے ہو۔
اختر جان مینگل کے مطالبات اُس وقت یہ تھے کہ جو گرفتار بچیاں ہیں انہیں رہا کیا جائے، میں نے 3 اپریل کو پشین کے جلسے میں وزیر اعلیٰ سے کہا تھا کہ چھوڑ دوان بچیوں کو اگر وہ مان جاتا تو یہ دھرنا بھی ختم ہوجاتا اور بچیاں اپنے گھر آجاتی۔
اختر جان مینگل جو مطالبے رکھے ہیں ان کے تمام جائز مطالبات پر پشتونخواملی عوامی پارٹی ان کے ساتھ ہے۔
محمود خان اچکزئی نے کہا کہ حکومت نے جس انداز میں نیشنل کنونشن سینٹر میں لوگوں کو جمع کرکے کہہ دیا کہ ہمارا ملک دنیا جہاں کے وسائل سے پُر ہیں آئے ان پر سرمایہ کاری کریں، خیبر پشتونخوا کے سینٹرل اضلاع، بلوچستان مکمل صوبہ اور گلگت بلتستان میں جو وسائل ہیں اسے لیجائیں۔
ہم آئی ایم ایف کے قرض دار ہیں اور ہم اس طرح اپنا قرضہ چھکائینگے۔
اور ان باتوں کے لیے کسی سے بھی نہیں پوچھا گیا۔
ہم آئی ایم ایف سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ پشتون، بلوچ علاقوں میں کہاں پر IMF کے روپے خرچ کیئے گئے ہیں ایک فیصد بھی صرف نہیں کیا گیا۔
ہم باغی نہیں لیکن یہ ہمارا حق ہے کہ ہم کہے کہ ہم IMF کے قرضوں کو وہ حصہ دینگے جو ہمارے علاقے پر خرچ ہوا ہے۔
سی پیک پروگرام کے تحت جو منصوبے تھے باقی تو دورکنار اُس میں ابھی تک دو راہے سڑک تک نہیں بنائی گئی اور روزانہ ہمارے لوگ مرتے ہیں۔
شہباز بھائی ایسا نہیں چلے گا یہ افریقہ نہیں ہے کہ افریقہ کہ مختلف وسائل کو مختلف ناموں سے لوٹا گیا اور وہاں ابھی تک لوگ فاقوں پر لگے ہوئے ہیں۔
ہم امریکہ، جمہوری یورپی یونین اور دنیا کے وہ تمام ممالک جو ترقی کے منازل طے چکے ہیں ہیں ہم ان سے التماس کرتے ہیں کہ وہ مہربانی کرکے پاکستان کے عوام سے رشتہ بنائیں۔
امریکہ، چین، یورپی یونین، روس جو بھی عوام سے رشتہ بنائیگا وہ پائیدار، برابری کی بنیاد پر اور انسانوں کی ترقی کے لیے ہوگا اور اگر ووٹ چوروں، ضمیر فروشوں کے ساتھ رشتے قائم کرینگے تو پھر ہم سوچیں گے۔
ہم مجبور ہیں کہ اپنے وطن کے وسائل کی دفاع کے لیے جو صدیوں سے ہمارے وطن میں ہیں اس کا دفاع کریں۔
ایسا نہیں کہ یہ پشتون وطن میں ہے اور ہم اس پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور اس پر کسی پاکستانی کا حق نہیں۔
تحفظ آئین پاکستان ہم نے اس لیئے بنائی ہے اور ہم یہ کہتے ہیں کہ اپنے عوام پر بھروسہ کریں، ڈنڈوں کے زور پر ملک نہیں بنائے جاتے، لوگوں کو گالیاں دینے، جیلوں میں بند کرنے سے کام نہیں چلے گا۔
پشتون، بلوچ، سندھی، سرائیکی سب کہ کہہ دیں کہ آپ کے وطن میں جو نعمتیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو دی ہے اس پر پہلا حق آئینی طور پر آپ کے بچوں کا ہوگا۔
محمود خان اچکزئی نے کہا کہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (SIFC) اٹھارویں ترمیم، صوبائی خودمختاری، پاکستان کی جمہوریت کے تباہی کے مترادف ہے۔
میں شہباز شریف اور تمام فورسز جو اس ناجائز حکومت کو سپورٹ کررہی ہے اُن سے واضح کہنا چاہتا ہوں کہ جب تحریکیں چلے گی، پشتون، بلوچ، گلگت بلتستان والے اور سیاسی جمہوری پارٹیاں مل کر اپنے وسائل کا دفاع کرینگے اس صورت میں اگر ملک کو خدانخواستہ کوئی نقصان پہنچے گا تو اس کی ذمہ داری شہباز اینڈ کمپنی کی ہوگی ہم اس کے ذمہ دار نہیں ہوں گے۔
ہم جھولی پھیلاتے ہیں کہ خدا کے لیے اس ملک پر اس کے لوگوں پر رحم کریں۔
غربت کہاں تک پہنچ چکی ہے اور فون پر کہاں جاتا ہے کہ بجلی اتنی سستی ہوگئی ہے اس سے کام نہیں ہوگا۔
خدا کو مانے عوام پر بھروسہ کرے ان کے روزی روٹی کا بندوبست کرے۔
محمود خان اچکزئی نے افغان کڈوال سے متعلق کہا کہ جس طرح غلط، غیر انسانی انداز میں بے عزتی خصوصاً پنجاب اور سندھ کی حکومتیں انہیں تنگ کررہی ہیں یہ ہمارے لیے قابل قبول نہیں۔
میں UNHCR سے استدعا کرتا ہوں کہ یونائیٹڈ نیشن ہائی کمشنر آف رفیوجیز، پاکستان اور افغانستان کی حکومتیں بیٹھ کر کوئی طریقہ نکالیں۔
لاکھوں لوگ ہیں انہوں نے اربوں روپے یہاں سرمایہ کاری کی ہے۔
پنجاب، سندھ، کراچی یہاں کی مارکیٹیوں میں افغانوں کی اربوں روپے سرمایہ کاری ہیں انہوں نے اس ملک کے بنانے، ترقی میں آپ کا ساتھ دیا ہے۔
انہیں تنگ کرنے کا طریقہ انتہائی بھونڈہ اور غلط ہے یہ بند ہونا چاہیے۔
لائیں انہیں یہاں اس وطن میں آباد کرے جنہیں نے آپ نے خود گرین وغیرہ کارڈ دیئے ہیں۔
آپ نے اُنہیں کہا تھا کہ آپ مجاہدین اسلام ہے، دُکھ ہوتا ہے اس وزیر اعظم ہائوس میں بیٹھ کر کہاں جاتا تھا کہ آپ نے یہ کرنا ہے آپ نے وہ کرنا ہے۔
لاکھوں لوگوں شہید ہوئے، مارے گئے اُس احسان کا یہ بدلہ دیاجارہا ہے۔
ہم وارن کرتے ہیں یہاں کے لوگوں کہ ان غریبوں کی جائیدادوں کو لوٹنے کی فکر میں نہ رہے، ہم تمام افغانوں کو کہتے ہیں کہ آپ کے جو کارخانے، بنگلے، جائیدادیں ہیں ہم آئینگے آپ کے پاس شریف لوگوں کے حوالے کردے جن میں پشتون، سندھی، بلوچ، پنجابی لوگ ہوں گے کہ بھائی میں جارہا ہوں یہ میری جائیداد اور ملکیت ہے آپ کے پاس امانت اور میں پاسپورٹ لیکر واپس آئونگا۔
لیکن یہ جو کچھ جس انداز میں جاری ہے یہ پاکستان، افغانستان اور بالخصوص افغان عوام کے دلوں میں وہ نفرتیں پیدا کردیگی جس کو پھر سنبھالنا ہمارے لیئے مشکل ہوگا۔
افغانستان آپ کا دوست اور بہترین ہمسایہ ہے۔
علامہ اقبال شہر تھا کہ افغانستان ایشیاء کا دل ہے۔
آسیا یک پیکر آب و گل است، ملت افغان در آن پیکر دل است، از فساد او فساد آسیا، در گشاد او گشاد آسیا۔
جب تک افغانستان میں امن نہیں ہوگا اس خطے میں گڑھ بڑھ ہوگی۔
افغان اچھے لوگ ہیں وہ نہ بھولتے ہیں اور نہ معاف کرتے ہیں، اگر آپ اچھائی کرینگے تو وہ جاکر اپنے بچوں کو کہہ دینگے کہ ہمارے ساتھ پاکستان نے یہ یہ احسانات کیئے اس ملک کا خیال کرے لیکن اگر آپ اس طرح تنگ کرینگے تو اس سے سارے خطے میں بہت بڑی بربادی پھیلے گی۔
مستونگ سے لیکر لسبیلہ تک تمام بلوچستان کی زمینداری، زراعت افغانستان کے لوگوں نے سنبھالی ہے، ٹھیکیداری پر لیکر زمینداروں کو کروڑوں روپے کا فائدہ پہنچا رہے ہیں۔
اگر آپ نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم نے انہیں مار بھگانا ہے تو یہ طریقہ غلط ہے اور ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔
اگر ہمیں مجبور کیا گیا مشورہ کرینگے ہم انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس پتہ نہیں جاسکے گے یا نہیں لیکن افغان یا ان کے دوستوں سے کہہ دونگا کہ وہ جائیں۔
میں آج بھی یہ کہوں گا کہ امریکہ، روس، فرانس، عرب ممالک آپ سب افغانوں کے مقروض ہیں، آپ کی باہمی جنگ کی وجہ سے وہ قوتیں جنہوں نے روسی فوجوں کا ساتھ دیا اور وہ قوتیں جنہوں نے افغانوں کو ان کیخلاف منظم کیا یہ سب بشمول چین، فرانس، جاپان ساری دنیا جو اس جنگ میں شامل تھی آپ نے اس جنگ میں افغانستان کو میدان جنگ بنا کر دنیا جہاں کے خطرناک اسلحے استعمال کیئے۔
افغانوں کے لاکھوں بچے مارے، ان کی وطن کو برباد کیا، ایٹم بم کے علاوہ تمام بھاری اسلحہ اور بموں کا استعمال کیا گیا۔
آپ ان کے مقروض ہیں۔
افغانستان کی بربادی میں ملوث اُن تمام ممالک کا فرض بنتا ہے کہ آپ افغانستان کی انفراسٹریکچر کی بحالی، ری بلڈنگ، اس کی ترقی وخوشحالی میں اپنا کردار ادا کرے۔
محمود خان اچکزئی نے کہا کہ SIFC، مائنز ومنرل پر ہم تمام پارٹیوں مولانا فضل الرحمن صاحب اور سب سے ملاقات کرینگے، کل جماعت اسلامی کے رہنماء کا بہترین بیان تھا انہوں نے بھی کہا تھا کہ ایسا نہ کریں۔
جب آپ لوگوں کو چھیڑیں گے، لوگوں کے گھروں میں گُھسے گے، انکے پہاڑوں، مائنز، معدنیات پر قبضہ کرینگے اور وہ اپنے وسائل کا دفاع کرینگے تو آپ دنیا کو کہیں گے کہ یہ دہشت گرد ہے۔
دہشتگرد وہ نہیں جو اپنے گھر، سرزمین، وسائل، اپنی ماں بہن کی دفاع کرتا ہے بلکہ دہشتگرد وہ ہے جو کسی کے گھر میں گھستا ہے اسے بے عزت کرتا ہے۔
میں پھر ریکویسٹ کرتا ہوں افواج پاکستان کے ذمہ داروں، شہباز اینڈ کمپنی سے کہ خدا کو مانے اور ملک کی بنیادوں کو مت ہلائو، آپ کی بیوقوفیوں کی وجہ سے اگر یہ ملک دنیا کے مست سانڈوں کا میدان جنگ بنا تو پھر کچھ نہیں بچے گا۔
آئیں اپنے ملک کو بچائیں۔
اگر امریکہ، چین، جاپان، فرانس کوئی چاہتا ہے کہ خیبر پشتونخوا، بلوچستان کے علاقوں میں اپنے لئے منرلز پر سرمایہ کاری کرے تو آئیں یہاں خیبر پشتونخوا کے ذمہ داروں، گلگت بلتستان کے لوگوں، بلوچستان کے بلوچ پشتون سے بات کریں۔
ہمارے صوبے میں 200 میل کا علاقہ OGDCL وغیرہ کو الاٹ ہوا ہے۔
ایسا نہیں چلے۔
یہ ہمارا وطن ہے ہم اس کو بچانا چاہتے ہیں اور پاکستان کو چلانا چاہتے ہیں جس کا واحد راستہ یہ ہے کہ یہاں آئین کی بالادستی ہوگی، پارلیمنٹ طاقت کا سرچشمہ ہوگا، خارجہ و داخلہ پالیسیاں یہاں بنے گی، قانون میں سب برابر ہے یہ پاکستان دس سے پندرہ سالوں میں بہترین پاکستان بنے گا۔
محمود خان اچکزئی نے کہا کہ فلسطین انبیاء کرام علیہ اسلام کی زمین ہے جو صدیوں سے حق و باطل کی قوتوں کا میدان جنگ بنا رہا ہے۔
اس سرزمین میں 54 سے اوپر اسلامی ممالک کی موجودگی میں لوگوں کی بے عزتیاں کی جارہی ہے، بچے مارے جارہے ہیں، عورتیں ماری جارہی ہیں یہ بیٹھ کر بددعائیں دے رہیں۔
بددعائوں سے کچھ نہیں ہوگا عزم چاہیے ہوتا ہے۔
ہم اسرائیل سے اس بنیاد پر نفرت نہیں کرتے ہم انسانیت سے محبت کرنیوالے لوگ ہیں۔
اسرائیل سے میری ریکویسٹ ہے کہ جتنا ظلم بحیثیت قوم آپ پر ہوا کسی قوم پر نہیں ہوا، آخر میں جب خدا تعالیٰ آپ سے ناراض ہوا اور یہ قرآن کریم میں بھی ہے کہ ’’میں نے تم پر ایسے حاکم مسلط کیئے جو تمہارے بچوں کو ذبح کرتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ لوٹتے‘‘، پھر جب آپ نے توبہ کی اور ایک بچہ پیدا ہوا اور وہ لڑا اور اس کا نام موسیٰ علیہ اسلام تھا۔
جتنا ظلم تمہاری ملت پر ہوا پھر تم کس طرح فلسطینی عوام پر ظلم کرتے ہوں۔
بمباریوں، قتل عام سے فلسطینی عوام کو غزہ سے فارغ کرنا ایسا نہیں ہوگا۔
کسی کو اچھا لگے یا بُرا اسرائیل اور فلسطین کو دو علیحدہ علیحدہ ریاست بنانی ہوں گی۔
1967 کی جنگ کے بعد شاہ فیصل جنہوں نے امریکیوں کی ناک میں دم کیا تھا اُس نے بھی یہ کہا تھا کہ اگر اسرائیل اُن قبضہ علاقوں سے نکل جائے جو انہوں نے 1967 میں قبضہ کیئے تھے تو ہم عرب ان کو recognize کرنے میں سوچ سکتے ہیں۔
یہ دنیا برابری، انسانوں کی دنیا ہے، فلسطینی بچے حق رکھتے ہیں۔
محمود خان اچکزئی نے کہا کہ پاکستان ایک خطرناک دو راہے پر ہے، میاں نواز شریف، مولانا فضل الرحمن، عوامی نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی کے اکابرین سب توبہ کریں، چار مہینے کے اندر شفاف غیر جانبدارانہ انتخابات کرائیں ٹھیک ہے عمران خان جیت جاتا ہے جیتنے دو۔
آئیں اس ملک کو چلائیں۔
عمران خان اچھا ہے یا بُرا، ایک دوسرے کو گالیاں دینے سے کوئی فائدہ نہیں۔
عمران خان پاپولر لیڈر ہے اس کو ضمانت پر جیل سے باہر نکالنا چاہیے۔
اگر یہاں سٹیٹ مین شپ ہوتی تو یہ پارلیمنٹ ایک ریزولیشن پاس کردیتی کہ عمران خان کے کیسز ہم نے ختم کردیئے ہیں۔
محمود خان اچکزئی نے میاں نواز شریف اور ڈاکٹر مالک بلوچ کی ملاقات، بلوچستان کے مسئلے، اور نواز شریف کے اچانک لندن جانے کے حوالے سے صحافی کے سوال کے جواب میں کہا کہ اگر کوئی ایسا سوچتا ہے کہ تو وہ غلط سوچ رہا ہے۔
بلوچستان کے مسئلے کو تجرید میں نہیں دیکھا جاسکتا، بلوچستان کا مسئلہ پاکستان کے مسائل میں سے ایک مسئلہ ہے اور نواز شریف، آرمی چیف بہتر جانتے ہیں۔
پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ لوگوں نے 8 فروری 2024 الیکشن کے دن رات 9 بجے کے بعد زر زور اور ڈنڈے کے زور پر دہشت زدہ کرکے پاکستان کے 23 کروڑ عوام کا حق چھینا ہے، اسے ہر صورت واپس کرنا ہوگا۔
یہ بڑا پن ہوتا ہے کوئی بُری بات نہیں ہوتی کہ آدمی کہہ دیں کہ غلطی ہوگئی۔
لیکن اپنے غلطی پر اڑے رہنا اور ڈنڈا اٹھانے سے کام نہیں چلے گا۔
ہمیں انسانیت، شرافت، جمہوریت کی طرف واپس ضرور جانا ہوگا۔
Leave a Reply