تربت: میونسپل کارپوریشن تربت کے میئر بلخ شیر قاضی نے اسٹارسبرگ میں منعقدہ یورپی کانگریس کے 48ویں سیشن اور ایشیا پیسفک لوکل گورننس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عالمی مندوبین سے مقامی جمہوریت، نوجوان قیادت اور پائیدار ترقی کے لیے تعاون کی اپیل کی۔
اس اہم عالمی فورم میں میئر تربت نے ایشیا کی نمائندگی کی، جبکہ افریقہ سے لوکاسا کے میئر اور یورپ کے مختلف ممالک سے مندوبین شریک تھے۔
میئر بلخ شیر قاضی نے کہا کہ تربت، جو رقبے میں چھوٹا مگر امکانات سے بھرپور شہر ہے، مقامی جمہوریت اور پائیدار ترقی کی ایک روشن مثال بن کر ابھرا ہے۔ انہوں نے کہا، یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ میں تربت کا نقطہ نظر عالمی سطح پر پیش کر رہا ہوں۔ تربت چیلنجز اور روشن امکانات دونوں کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ مؤثر حکمرانی کی بنیاد مقامی جمہوریت ہے، کیونکہ پالیسیاں شہروں میں نافذ ہوتی ہیں اور عوام کی آواز یہیں سب سے زیادہ مؤثر ہوتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں مقامی حکومتوں کو درپیش مالی، انتظامی اور ادارہ جاتی رکاوٹوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تربت نے ان چیلنجز کے باوجود نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ انہوں نے فخر سے بتایا کہ تربت بلوچستان میں سب سے زیادہ شرح خواندگی والا شہر ہے، جہاں فیصلہ سازی میں نوجوانوں کو کلیدی کردار دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا میری کونسل کے 70 فیصد سے زائد ارکان نوجوان ہیں، جو ہمارے مستقبل کو نوجوان قیادت کے سپرد کرنے کے عزم کا ثبوت ہے۔
میئر نے وسائل کی کمی کو مقامی جمہوریت کی سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مالی خودمختاری کے بغیر مقامی حکومتیں طویل المدتی منصوبہ بندی اور ترقیاتی منصوبے مؤثر طریقے سے نافذ نہیں کر سکتیں۔ انہوں نے عالمی برادری سے تجربات، وسائل اور حکمت عملی کے تبادلے کے لیے تعاون کی اپیل کی۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تربت شدید گرمی، پانی کی قلت اور موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہے۔ انہوں نے کہا، ہمارا عزم ہے، لیکن تکنیکی ماہرین اور مالی وسائل کی کمی ہماری راہ میں رکاوٹ ہے۔
میئر نے عالمی مندوبین سے تین اہم مطالبات پیش کیے: یورپی جامعات میں تربت کے طلبا کے لیے اسکالرشپس، ڈاکٹروں اور انجینئروں کے لیے تربیتی پروگرامز، اور لوکل باڈی کے ارکان کی صلاحیت بڑھانے کے منصوبے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم اور مہارت میں سرمایہ کاری سے تربت کو ترقی کا مرکز بنایا جا سکتا ہے، ورنہ “ہم اپنے خوابوں کی تعبیر میں ناکام رہیں گے۔
Leave a Reply