لاہور : کونسل آف پاکستان نیوزپیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) نے میڈیا کی آزادی پر پابندیوں اور پرنٹ میڈیا کو درپیش چیلنجز پر انتہائی تشویش کا اظہار کیا،
سی پی این ای اسٹینڈنگ کمیٹی کے اجلاس میں صدر ارشاد احمدعارف نے کہا کہ پرنٹ میڈیا کی ایک مسلمہ اہمیت ہے اور ذمے دارانہ صحافت کا علمبردار ہے ،لیکن سوشل میڈیا سے حکومتی شکایات کا ملبہ بھی مین اسٹریم میڈیا پر پڑ رہا ہے
اور اسکی آزادی کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔میڈیا اداروں اور صحافیوں کے خلاف تادیبی کاروائیاں کی جا رہی ہیں ایک طرف حکومتی دعوؤں کے مطابق ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے لیکن حکومت کی عدم توجہ کے باعث پرنٹ میڈیا مزید زبوں حالی کا شکار ہے،
انہوں نے مزید کہا کہ نجی صنعتی ومعاشی شعبے کے بجٹ سکڑنے کے باعث پرنٹ میڈیا کا زیادہ انحصار سرکاری اشتہارات پر ہے، جس کی وجہ سے اسے دبائو کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
لہذا اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے اخبارات کو ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنا اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ اقدامات اٹھانا چاہیئں،سینئر نائب صدر انور ساجدی نے کہا کہ پرنٹ میڈیا آج انتہائی سنجیدہ بحران سے دوچار ہے، سوشل میڈیا کی یلغار نے روایتی صحافت کو کڑے امتحان میں ڈال دیا ہے۔
بلوچستان میں پرنٹ میڈیا تاریخ کے انتہائی مشکل دور سے گزر رہا ہے،سیکریٹری جنرل اعجاز الحق نے کہا کہ پرنٹ میڈیا کو درپیش بحران کا درست حل اس وقت ممکن ہے جب مسائل کی درست نشاندہی کی جائے۔ سرکاری اشتہارات پرنٹ میڈیا کی ریڑھ کی ہڈی ہیں تاہم تمام حکومتوں کی جانب سے اشتہارات کی بندش کو پرنٹ میڈیا پر دباؤ ڈالنے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے اخبارات کو براہ راست بینک اکاؤنٹ میں سرکاری اشتہارات کے واجبات کی ادائیگی شروع کر دی ہے۔پنجاب حکومت بھی اس فارمولے پر کام کر رئی ہے جو خوش آئند ہے
انہوں نے کہا سندھ حکومت کی جانب سے 2021 تک گزشتہ 7 سال کے بجیٹیڈ / نان بجیٹیڈ اشتہارات کا آڈٹ جاری ہے ، جو رواں ماہ کے اختتام تک مکمل کرلیا جائے گا ،انہوں نے مزید کہا کہ پیپرا رولز میں ترامیم کرکے ٹینڈر اشتہارات صرف ویب سائٹ پر آویزاں کر رئی ہے اس حوالے سے اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، جو صریحا انصافی ہے۔
اس سے پرنٹ میڈیا کو شدید نقصان ہو رہا ہے انہوں نے کہا ادارتی پالیسی کے باعث بعض اخبارات کے اشتہارات کی بندش قابل مذمت ہے ڈاکٹر جبار خٹک نے پرنٹ میڈیا کی بہتری کے کیے سلوشن جرنلزم، مشترکہ پرنٹنگ پریس کے قیام اور اے آئی ٹیکنالوجی کے استعمال کی تجاویز دی۔ کاظم خان نے پیکا ایکٹ سمیت میڈیا مخالف تمام قوانین کو ختم کیا جائے اور صحافیوں اور میڈیا اداروں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔
ایاز خان نے کہا کہ پنجاب میں بھی آزادی صحافت کی صورتحال انتہائی حد تک قابل تشویش ہوچکی ہے اور ریاست مین اسٹریم میڈیا کو کنٹرول کر کے خود سوشل میڈیا کو تقویت دے رہی ہے۔نائب صدر کے پی کے طاہر فاروق نے اجلاس کو بتایا کہ سی پی این ای کی طرف سے پشاور ہائیکورٹ میں اخبارات کے واجبات کے حوالے سے جو کیس ہے اس کی وجہ سے اخبارات کی روٹین کی ادائیگیاں زیادہ ہوئی ہیں اور امید ہے جون تک روٹین میں مزید بقایا جات بھی ملیں گے
اور اسی پریشر میں پرانے واجبات بھی نکلیں گے ،انہوں نے کہا کہ توہین عدالت کے نوٹس بھی جاری ہوئے ہیں صوبائی محکمہ اطلاعات نے ری کنسیلیشن شروع کی ہوئی ہے اور صوبائی حکومت کے جو محکمے جو پہلے ری کنسیلیشن نہیں کرتے تھے اب ان کی جانے ایک ارب اسی کروڑ میں سے ایک ارب دس کروڑ کی ری کنسیلیشن بقایا جات کی مد میں محمکہ اطلاعات کے ساتھ ہو چکی ہے خاتون رکن درنایاب نے کہا کہ پرنٹ میڈیا کو اپنی شناخت کی بحالی کے لیے پبلک انٹرسٹ اسٹوریز کو ترجیح دینا ہوگی۔
اجلاس میں ایف بی آر کی جانب سے اخبارات کو بھیجے گئے نوٹسز پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور ڈان اخبار کے اشتہارات کی بندش کی مذمت کی گئی۔
اس موقع پر واضح کیا گیا کہ جب تک اے بی سی کی جانچ کا طریقہ کار تبدیل نہیں ہوتا ، ایف بی آر کی جانب سے اخبارات کو نوٹسز بھجوانے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
اجلاس میں سی پی این ای کی سالانہ “پاکستان میڈیا فریڈم رپورٹ” بھی پیش کی گئی جس میں سال 2024 اور 2025 کے دوران صحافتی فرائض انجام دیتے ہوئے جاں بحق، زخمی اور ملک چھوڑنے پر مجبور ہونے والے صحافیوں کا ذکر کیا گیا۔
رپورٹ میں پاکستان میں میڈیا کی آزادی پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا۔اسٹینڈنگ کمیٹی نے اسکروٹنی کمیٹی کی سفارشات پر 7 اخبارات و جرائد کو ایسوسی ایٹ ممبرشپ کی منظوری دی گئی۔
اجلاس نے فیصلہ کیا کہ جن اخبارات کو شوکاز نوٹس بھیجے گئے تھے ان میں سے جہنوں نے شوکاز کے جواب میں معزرت نامہ جمع کروا دیا ہے ،سی پی این ای کے سالانہ اجلاس عام کے فیصلے کے مطابق ان کیسز کو آئندہ اجلاس عام میں رکھا جائے۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اگر اشتہاری ایجنسی میڈاس کے مالک سے واجبات کی ادائیگی پر بات نہ بنی تو ایک ہفتے کے اندر ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی جائے گی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ سی پی این ای کی جنرل کونسل کا اگلا اجلاس 3 مئی بروز ہفتہ 2025 کو کراچی میں منعقد کیا جائے گا۔
اجلاس میں سیکریٹری جنرل اعجاز الحق، سینئر نائب صدر انور ساجدی، ڈپٹی سیکریٹری جنرل غلام نبی چانڈیو، نائب صدور عامر محمود، طاہر فاروق، یحییٰ خان سدوزئی، بابر نظامی، جوائنٹ سیکریٹریز عارف بلوچ، منزہ سہام، رافع نیازی، وقاص طارق فاروق، فنانس سیکریٹری حامد حسین عابدی، انفارمیشن سیکریٹری ضیاء تنولی، اور سی پی این ای کے اراکین کاظم خان، ایاز خان، عبدالخالق علی، عبدالرحمان منگریو، اسلم میاں، بلال اسلم، بشیر احمد میمن، ڈاکٹر جبار خٹک، ڈاکٹر زبیر محمود، فضل الحق، قاضی اسد عابد، مقصود یوسف زئی، محمد اسلم خالد، محمد اویس رازی، سجاد عباسی، سردار محمد سراج، شہزاد امین، شکیل احمد ترابی، شیر محمد، سید مصور زنجانی اور ذوالفقار احمد راحت نے شرکت کی۔ اجلاس میں در نایاب، جمیل احمد قاضی، عثمان غنی سیفی اور ایوب چوہان بطور مبصر شریک ہوئے۔
Leave a Reply