|

وقتِ اشاعت :   April 19 – 2025

لاہور :  وفاقی وزیر تجارت جام کمال خان نے کہا ہے کہ پاکستان کی معیشت مستقل بہتری کی راہ پر گامزن ہے

جس کا سہرا حکومت کی انتھک کوششوں، معاشی اصلاحات اور کاروباری برادری کے قابل ستائش تعاون کو جاتا ہے،آئی ایم ایف سمیت دنیا پاکستان کی اقتصادی اصلاحات اور بحالی کی کوششوں کو تسلیم کر رہی ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوںنے لاہور چیمبر میں خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

لاہور چیمبر کے صدر میاں ابوذر شاد نے استقبالیہ خطاب پیش کیا جبکہ سارک چیمبر کے نائب صدر اور لاہور چیمبر کے سابق صدر میاں انجم نثار، سابق صدر محمد علی میاں، سابق سینئر نائب صدر علی حسام اصغر، سابق نائب صدر فہیم الرحمن سہگل، ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے چیف ایگزیکٹو آفیسر فیض احمد چدھڑ، ڈائریکٹر جنرل رافیہ سید اور ایگزیکٹو کمیٹی کے اراکین نے بھی اظہار خیال کیا۔وفاقی وزیر تجارت نے کہا کہ اگرچہ چند ماہ قبل ملک کو شدید معاشی چیلنجز کا سامنا تھا،

لیکن گزشتہ 18 ماہ کے دوران نمایاں بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔

آئی ایم ایف سمیت دنیا پاکستان کی اقتصادی اصلاحات اور بحالی کی کوششوں کو تسلیم کر رہی ہے۔

پاکستان میں بڑی نمائشوں میں غیر ملکی مندوبین کی بڑی تعداد میں شرکت عالمی اعتماد کی واضح علامت ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی ذاتی دلچسپی اور توجہ کی بدولت کئی اہم مسائل حل ہوئے ہیں جبکہ کاروباری برادری کا تعاون بے مثال ہے۔ جام کمال خان نے بتایا کہ ایکسپورٹ فنانس اسکیم کو کاروباری طبقے کی سہولت کے مطابق ڈھالا جارہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم خود بیرون ملک بی ٹو بی میٹنگز کی ہدایت کرتے اور ان کا حصہ بنتے ہیں۔ ایکسپورٹ ڈیولپمنٹ فنڈ میں سٹرکچرل ریفارمز کی جارہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی افغان وزیر تجارت سے ملاقات میں اہم تجارتی معاملات حل کیے گئے اور واضح کیا کہ افغانستان وسطی ایشیا تک زمینی رسائی کے لیے اہم راہداری ہے۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ نئی تجارتی پالیسی تیار کی جا رہی ہے اور پہلی بار ٹیرف کے حوالے سے شعبہ وار مشاورتی اجلاس منعقد ہوئے ہیں جنہیں ٹیرف بورڈ میں پیش کیا جائے گا۔لاہور چیمبر کے صدر میاں ابوذر شاد نے حکومت کی معاشی بحالی کی کوششوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے کچھ چیلنجز کی نشاندہی کی۔ انہوں نے کہا کہ برآمدات اس وقت تک نہیں بڑھ سکتیں جب تک صنعتی شعبے کے مسائل حل نہیں ہوتے۔

انہوں نے صنعت کو درپیش کئی سنگین مسائل پر روشنی ڈالی جن میں روپے کی قدر میں کمی، بجلی و گیس کے مہنگے نرخ، بند صنعتوں پر MDI چارجز کا اطلاق، انڈسٹریل اسٹیٹس میں زمین کی مہنگی قیمتیں اور خام مال و انٹرمیڈیٹ گڈز پر بھاری ڈیوٹیاں اور ٹیکسز شامل ہیں۔ میاں ابوذر شاد نے مزید کہا کہ پاکستان کی برآمدی آمدن میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ ویلیو ایڈیڈ مصنوعات کی کمی ہے۔ اگر برآمدات بڑھانی ہیں، صنعتی کاری کو فروغ دینا ہے اور سرمایہ کاری کو راغب کرنا ہے تو حکومت کو صنعتوں کو سستی بجلی و گیس فراہم کرنی ہوگی، سنگل ڈیجٹ فنانسنگ ممکن بنانی ہوگی اور ٹیرف اسٹرکچر میں فوری بہتری لانا ہوگی۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی 68 فیصد برآمدات ٹیکسٹائل، لیدر اور چاول تک محدود ہیں حالانکہ پاکستان کو حلال فوڈ، فارماسیوٹیکلز، آئی ٹی، انجینئرنگ گڈز، سرجیکل آلات اور کھیلوں کا سامان جیسے شعبوں میں بے پناہ برتری حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ لاہور چیمبر ہمیشہ نئی منڈیوں کی تلاش کی وکالت کرتا آیا ہے اور اس وقت پاکستان کی 58 فیصد برآمدات صرف 10 ممالک تک محدود ہیں۔

انہوں نے افریقہ، آسیان ممالک اور وسطی ایشیائی ریاستوں میں تجارت کے وسیع امکانات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے وزارت تجارت سے مطالبہ کیا کہ وہ ایسے ممالک میں تعینات پاکستان کے کمرشل قونصلرز کو ہدایت دے کہ وہ ہر چھ ماہ بعد مارکیٹ انٹیلی جنس رپورٹس تیار کریں اور ملک بھر کے چیمبرز کے ساتھ شیئر کریں۔

سارک چیمبر کے نائب صدر اور لاہور چیمبر کے سابق صدر میاں انجم نثار نے کہا کہ عالمی سطح پر جاری ٹیرف وار پاکستان کے برآمدکنندگان کے لیے بہترین موقع ہے اور ہمیں ان مواقع سے فائدہ اٹھانے پر توجہ دینی چاہیے۔ انہوں نے پالیسی سازوں پر زور دیا کہ وہ توانائی کے نرخوں اور دیگر لاگتوں کو کم کر کے پاکستانی مصنوعات کی عالمی مسابقت بڑھانے کے لیے فوری اقدامات کریں۔

سابق صدر لاہور چیمبر محمد علی میاں نے وزارت تجارت کا کمرشل قونصلرز کے انٹرویوز کے آغاز پر شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے خوش آئند اقدام قرار دیا۔

انہوں نے چیمبرز کے ساتھ بروقت اور مسلسل ڈیٹا شیئرنگ کو تجارتی پالیسیوں کی بہتری کے لیے ناگزیر قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ ایس آر او 578 کے تحت دستاویزات کی بہت زیادہ ضروریات برآمدکنندگان اور صنعت کاروں کے لیے رکاوٹ بن رہی ہیں جنہیں آسان بنایا جانا چاہیے۔سابق سینئر نائب صدر لاہور چیمبر علی حسام اصغر نے ایف ٹی اے ریجیم کی اہمیت پر بات کی اور مشترکہ منصوبوں کے فروغ کی ضرورت پر زور دیا تاکہ پاکستانی صنعتوں میں ٹیکنالوجی کی منتقلی اور مارکیٹ تک رسائی ممکن ہو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *