لاہور: سابق نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ افغانستان سے تعلقات میں بہتری پاکستان کا بڑا سفارتی قدم ہے،
اگرچہ ایک ہی دورے سے تمام مسائل حل نہیں ہو سکتے لیکن پاکستان کی جانب سے یہ ایک مثبت اور مضبوط آغاز ہے،پاکستان اس وقت ایک مضبوط پوزیشن میں ہے اور یہ اختیار صرف ریاست کے پاس ہے کہ وہ طاقت کا استعمال کرے یا مذاکرات کو ترجیح دے۔ایک انٹر ویو میں انہوںنے کہا کہ وزیرخارجہ اسحاق ڈار کا حالیہ دورہ افغانستان ایک اہم سفارتی پیشرفت ہے،یہ پہلی مرتبہ ہے کہ اس سطح کے مذاکرات ہوئے، جس سے خطے میں استحکام کے امکانات روشن ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ ایک ہی دورے سے تمام مسائل حل نہیں ہو سکتے لیکن پاکستان کی جانب سے یہ ایک مثبت اور مضبوط آغاز ہے۔انوار الحق کاکڑ نے افغانستان کے ساتھ تجارت اور وسط ایشیائی ریاستوں تک راہداری کو خطے کے تمام ممالک کے لیے فائدہ مند قرار دیتے ہوئے کہاکہ یہ راہداری نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان اور وسط ایشیا ء کے لیے بھی اقتصادی امکانات سے بھرپور ہے۔
تاہم، انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا افغانستان اس کے لیے تیار ہے اور کیا وہاں ایک منظم ریاستی نظام قائم ہو چکا ہے یا اس میں مزید وقت درکار ہوگا۔انہوںنے کہا کہ پاکستان کے لیے سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ افغان سرزمین دہشتگردی کے لیے استعمال نہ ہو۔ دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کو مثبت انداز میں دیکھا جانا چاہیے لیکن کچھ عناصر نہیں چاہتے کہ پاکستان اور افغانستان قریب آئیں۔
ایسی صورتحال ان عناصر کے مفاد میں ہے جو دوری کا فائدہ اٹھا کر خطے میں اپنا نیٹ ورک قائم رکھنا چاہتے ہیں۔انہوںنے کہاکہ پاکستان اس وقت ایک مضبوط پوزیشن میں ہے اور یہ اختیار صرف ریاست کے پاس ہے کہ وہ طاقت کا استعمال کرے یا مذاکرات کو ترجیح دے،پارلیمان کو فیصلہ کرنا ہے کہ پاکستان کے مفاد میں کون سا راستہ بہتر ہے۔
انہوں نے ہارڈ اسٹیٹ اور سوفٹ اسٹیٹ کے فرق کے سوال کے جواب میں کہا کہ ایک قانونی ریاست وہی ہوتی ہے جو قوانین کے نفاذ میں نرمی نہ دکھائے تاکہ ایک پرامن معاشرہ تشکیل پا سکے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اہم ریاستی معاملات کو بھی سیاسی رنگ دیا جاتا ہے
یا مذاق بنا دیا جاتا ہے جو سنجیدہ طرز حکمرانی کے منافی ہے۔بلوچستان کے حالات پر گفتگو کرتے ہوئے انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ دہشتگردی کے واقعات جیسے جعفر ایکسپریس پر حملہ سنگین مسائل کو جنم دیتے ہیں۔ اس کے باوجود کچھ عناصر دہشتگردوں کی لاشیں کلیم کرنے اور انہیں بطور ہیرو پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ قانون کی خلاف ورزی ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ وفاق اور صوبائی حکومت نے اس معاملے پر ریڈ لائن کھینچ دی ہے، ہارڈ اسٹیٹ کا مطلب یہی ہے کہ جب ریاست قانون نافذ کرے اور مجرموں کو قانون کے مطابق گرفتار کرے تو بعض عناصر اس قانونی کارروائی کو بھی جبری گمشدگی قرار دینے لگتے ہیں۔
سابق نگران وزیر اعظم نے کہا کہ جب ریاست قانونی کارروائی کرتی ہے تو اسے جبری گمشدگی سے تعبیر کیا جاتا ہے جو کہ ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔
انہوں نے بی ایل اے اور بی آر اے جیسے دہشتگرد گروہوں کے خلاف تسلسل سے کارروائی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ان کے بیانیے کو سیاسی چہرہ دینے کی کوشش کی جاتی ہے جو خطرناک رجحان ہے
۔انہوںنے کہا کہ عام شہری کی رائے اکثر مکمل معلومات پر مبنی نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات عوام میں بے چینی اور خلفشار پیدا ہوتا ہے لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ ریاست نے وقت پر مداخلت کر کے حالات کو سنبھالا۔
Leave a Reply