کوئٹہ: آل پاکستان فیڈریشن آف ٹریڈ یونینز ، بلوچستان لیبر فیڈریشن،پاکستان ورکرز کنفیڈریشن بلوچستان اور آل پاکستان یونائٹیڈ ایری گیشن ایمپلائز فیڈریشن کے زیر اہتمام عالمی یوم مزدور کی مناسبت سے کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں شکاگو کے عظیم جان نثاروں کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے جلسے، ریلیاں اور جلوس منعقد کیے گئے۔
کوئٹہ میں سب سے بڑا مرکزی جلسہ میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے سبزہ زار پر منعقد ہوا جس کی صدارت حاجی محمد رمضان اچکزئی نے کی جبکہ جلسے کے مہمان خاص خان زمان تھے جلسے سے ان سمیت مختلف فیڈریشنوں کے رہنمائوں عبدالحئی، حاجی بشیر احمد ، عبدالباقی لہڑی، قاسم خان کاکڑ، محمد یار علیزئی، محمد یوسف کاکڑ، محمد عمر جتک ، سید آغامحمد ،عابد بٹ، حاجی عزیز شاہوانی، ارشد یوسفزئی،حاجی عزیز اللہ،سابق سینیٹرمہیم خان،منظور شاہ، دین محمد ، منظور احمد،نور الدین بگٹی اور دیگر نے خطاب کیا۔اس سے قبل 1886ء کے جان نثاروں کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ایک منٹ کیلئے کھڑے ہو کر خاموشی اختیار کی گئی
۔ مقررین نے کہا کہ یکم مئی مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جانا دراصل ان مزدوروں اور محنت کشوں کی یاد دلاتا ہے جنہوں نے1886ء کو شکاگو میں اپنے مطالبات منوانے کیلئے خون کا نذرانہ پیش کیا اس سانحہ کا پس منظر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اور یورپ میں جب سرمایہ درانہ نظام نے سراٹھایا تو اس کا ساراملبہ محنت کشوں پر گرا، مزدوروں کے ساتھ غیر انسانی سلوک رواء رکھا گیا، ان کے اوقات کار بھی مقرر نہیں تھے، ان سے 12 سے 18 گھنٹوں تک کام لیا جاتا تھا ،
چھٹی کرنے کی اجازت بھی نہیں تھی، مزدوروں کو معمولی سی غلطیوں پر نوکریوں سے نکال دیا جاتا تھا اورجب ظلم و ستم کے پہاڑ حد سے زیادہ ٹوٹنے لگے تو مزدوروں میں اپنے حقوق حاصل کرنے کی لگن پیدا ہوئی اور انہوں نے اس ظلم سے بچنے کیلئے اپنی جانوں کی قربانی دے کر تحریک کا آغاز کیا گویا یہ دن دنیا کے تمام مزدوروں کیلئے تجدید عہد کا دن ہے اور یہ دن منا کر مزدور اپنے شکاگو کے ساتھیوں کے ساتھ یکجہتی اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ آج پاکستان میں محنت کش طبقے کی حالت 1886ء کے مزدوروں سے بھی بد تر ہے مختلف شعبوں میں کام کرنے والے لاکھوں مزدوروں کو آج بھی صحت و سلامتی کی سہولتوں سمیت سوشل سیکورٹی تک دستیاب نہیں ہے، مہنگائی و بے روزگاری نے غریب عوام بالخصوص محنت کش طبقے کی کمر توڑ دی ہے،
اس ہوشربا مہنگائی میں بچوں کو پڑھانا اور دو وقت کی روٹی کھلانا بھی مشکل ہو گیا ہے اور آج پاکستان کا مزدور طبقہ بہت مشکل حالات سے گزر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں جاری معاشی و سیاسی صورتحال کا اثر ہماری قومی معیشت پر بھی پڑا ہے اور اس کا سب سے بڑا نشانہ محنت کش طبقہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ مزدور تحریک کی موجودہ صورتحال اور گلوبل آئزیشن، فری مارکیٹ اکانومی اور پرائیویٹائزیشن میں مزدوروں اور ان کی تنظیموں کی طاقت کو محدود جبکہ صنعتکاروں، سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کے نظام کو مزید مضبوط بنادیا گیاہے پاکستان میں پرائیویٹائزیشن مزدور طبقے کیلئے ایک لٹکتی تلوار ہے
جس کے نتیجے میں لاکھوں بر سر روزگار افراد بے روزگار ہورہے ہیں بلکہ کئی ادارے بند ہو چکے ہیں اور پرائیویٹ ہونے والے اداروں نے ٹریڈ یونین تحریک کودیوار سے لگا دیا ہے اس لئے قومی اداروں کی نجکاری کے خلاف ملک کا محنت کش طبقہ ہر سطح پر جدوجہد جاری رکھے گا۔مقررین نے محنت کشوں سے کہا کہ ان حالات میں ملک کے محنت کشوں کو اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے متحد ہونا پڑے گامتعدد ٹریڈ یونینز ، فیڈریشنز اور دیگر تنظیمیں محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں
لیکن ستم ظریفی یہ کہ محنت کش طبقے کی ملک کی سیاست اور پارلیمان میں کوئی نمائندگی نہیں ہے اس لئے مزدور طبقے کی تنظیموں کو دیگر ترقی پسند سیاسی جماعتوں کے تعاون سے جمہوری وسیاسی جدوجہد اور پارلیمان میں اپنے طبقے کی موثر نمائندگی کیلئے سرگرمی کے ساتھ حصہ لینا چاہیے اور وقت کا تقاضا ہے کہ محنت کش طبقے کے حقوق کے تحفظ کیلئے موجودہ حالات میں یہ ایک موثر اقدام ہوگا۔
جلسے کے آخر میں متعدد قراردادیں پیش کی گئیں جس میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں آئے روز رد و بدل اور اضافے کو مسترد کرتے ہوئے مہنگائی کے خاتمے کیلئے پٹرولیم مصنوعات، بجلی ، گیس اور اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں کم کرنے اور حالیہ ہوشربا مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں اور پنشنز میں 300 فیصد اضافہ اورمزدوروں کی کم سے کم ماہانہ اجرت ایک تولہ سونے کے برابر مقررکرنے کا مطالبہ کیا گیا،
محکمہ محنت و افراد ی قوت کی انتظامیہ رجسٹرار ٹریڈ یونینز کی جانب سے ازخود نوٹس پر بلوچستان کے 62 یونینوں کی رجسٹریشن کینسل کرنے کے جانبدارانہ فیصلے کے مراسلے کو منسوخ کرکے بلوچستان انڈسٹریل ریلیشن ایکٹ (BIRA )2012 کی پاسداری کرنے اور بلوچستان کی تمام اتھارٹیز اور دیگر سرکاری اداروں میں یونین سازی کا حق تسلیم کرنے کا مطالبہ کیاگیا، قرار داد کے ذریعے کہا گیا کہ انڈیا کی طرف سے دھمکیوں پر مزدور طبقہ ملک کے دفاع کیلئے اپنی حکومت اور افواج پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا ہے،
بلوچستان کے مسائل کو سیاسی مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے حل کرنے کیلئے عملی اقدامات اٹھائے جائیں
، گرفتار سیاسی کارکنوںکو رہا کیا جائے، ماورائے عدالت قتل ، گمشدگیاں اور ردعمل میں ہر قسم کی دہشت گردکاروائیاں ختم ہونی چاہییں۔ایک قرارداد میں حکومت سے مطالبہ کیاگیا کہ سی آر پی سی اور سی پی سی کی طرح مزدوروں کے 70 سے زیادہ قوانین کو یکجاء کرکے پاکستان کی سطح پر پاکستان ورکرز ایکٹ اور صوبوں کی سطح پر صوبائی ورکرز ایکٹ کی قانون سازی کرکے مزدوروں کو ان کے جائز مسائل کے حل میں مدد فراہم کی جائے۔اسی طرح محنت کشوں کی فلاح و بہبود اورملکی سلامتی کیلئے دیگر قراردادیں پیش کی گئیں جن کی منظوری جلسے کے شرکاء نے ہاتھ اٹھا کر دی۔
Leave a Reply