|

وقتِ اشاعت :   5 hours پہلے

کوئٹہ: ایف پی اے پی بلوچستان چیپٹر کے زیر اہتمام اور یو این ایف پی اے کے تعاون سے صوبائی سی ایس او میٹنگ کا انعقاد کوئٹہ میں کیا گیا۔

اجلاس کا آغاز قاری رشید کی تلاوتِ کلام پاک سے ہوا۔

ایف پی اے پی بلوچستان کے نمائندے محمد انور نے شرکا کو خوش آمدید کہا اور میٹنگ کی میزبانی کے فرائض انجام دیے، جبکہ میٹنگ کے مقاصد اور اہمیت پر روشنی مشتاق بلوچ نے ڈالی۔

یو این ایف پی اے بلوچستان کی سربراہ سارہ عطا نے میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک موثر فورم ہے، جسے بہتر طریقے سے استعمال کر کے ہم خاندانی منصوبہ بندی کے اہداف حاصل کر سکتے ہیں۔

انہوں نے CSO نیٹ ورک کے TORs بنانے کی تجویز دی اور اس بات پر زور دیا کہ سول سوسائٹی کی استعداد بڑھانے پر توجہ دینی چاہیے۔

رہنما ایف پی اے پی کی پروجیکٹ ڈائریکٹر مس عروج وجاہت نے اپنے خطاب میں کہا کہ ادارہ حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر خاندانی منصوبہ بندی کے مسائل پر کام کر رہا ہے۔

انہوں نے اسکور کارڈ کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ اسے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کوارٹرلی بنیاد پر مکمل کرنا ہوگا۔ ایف پی اے پی کو اس عمل میں قیادت کی ذمہ داری سنبھالنی ہوگی۔

ایڈوکیسی مینیجر امجد لطیف نے پریزنٹیشن کے ذریعے پاکستان میں FP2030 اہداف اور CSOs کے کردار پر روشنی ڈالی۔

انہوں نے بتایا کہ فیملی پلاننگ پاکستان کے اب تک کے حاصل کردہ نتائج اور آئندہ حکمت عملی پر کام جاری ہے۔

انہوں نے “توازن” کے قومی بیانیے پر زور دیا اور نوجوانوں کو شامل کیے بغیر کامیابی ممکن نہ ہونے کی بات کی۔

اکرام اللہ خان، نمائندہ پاپولیشن کونسل نے کہا کہ 2021 میں بننے والی نیشنل کولیشن خاندانی منصوبہ بندی کے لیے مسلسل ایڈوکیسی کر رہی ہے۔

انہوں نے مسلم ممالک کے مثر فیملی پلاننگ ماڈلز، جیسے بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور ایران کی مثالیں دیں، اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ، علما سے مشاورت، اور سماجی رویوں کی اصلاح کو کامیابی کی کنجی قرار دیا۔اجلاس میں اسکورنگ کارڈ بھی پیش کیا گیا، جس پر تفصیلی گفتگو اور اسے مثر انداز میں مکمل کرنے کے لائحہ عمل پر تبادلہ خیال ہوا۔

یو این ایف پی اے کے صوبائی نمائندے ڈاکٹر سرمد خان نے بتایا کہ 2024 میں صوبائی ٹاسک فورس کی میٹنگ نہیں ہو سکی، البتہ 2023 میں ایسی میٹنگز منعقد ہوئیں۔میر بہرام لہڑی نے کہا کہ اسکور کارڈ کو فورم پر نقطہ وار پیش کیا جائے تاکہ شرکا مثر انداز میں اپنی رائے دے سکیں۔

قاری رشید نے کہا کہ زمینی حقائق سے چشم پوشی اور ناقابلِ عمل منصوبہ بندی ناکامی کی بڑی وجوہات ہیں۔فاطمہ خان نے کہا کہ صوبائی محکموں کی مانیٹرنگ CSOs کے دائرہ اختیار سے باہر ہے، لہذا مانیٹرنگ پوائنٹس پر نظرِ ثانی ہونی چاہیے۔

اس پر میر بہرام بلوچ نے کہا کہ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2021 کے تحت حکومت کی مانیٹرنگ ممکن ہے۔

ڈاکٹر منیر احمد نے زور دیا کہ تبدیلی صرف ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر ممکن نہیں، ہمیں گراس روٹ سطح پر کام کرنا ہوگا۔

ودودہ جمال نے سوشل میڈیا کے کردار پر روشنی ڈالی۔اختتامی کلمات میں ایف پی اے پی کے صدر نے کہا کہ آج کے اجلاس میں اٹھائے گئے نکات پر عملدرآمد ضروری ہے تاکہ اجتماعی طور پر آگے بڑھا جا سکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *