گزشتہ چند ماہ کے دوران پاکستان کی معیشت بہتر سمت میں گامزن ہوچکی ہے۔
دوست ممالک سمیت عالمی کمپنیاں بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کررہی ہیں جس سے ملکی معیشت مضبوط ہوتی جارہی ہے۔
پاکستان سرمایہ کاری کیلئے بہت موزوں ملک ہے۔
پاکستان کے قابل ذکر معدنی ذخائر میں دنیا کے دوسرے بڑے نمک کے ذخائر، پانچویں بڑے تانبا اور سونے کے ذخائر اور نمایاں کوئلے کے ذخائر شامل ہیں۔
قیمتی پتھروں کے وافر ذخائر موجود ہیں جو برآمدات کے لحاظ سے نمایاں صلاحیت رکھتے ہیں۔
پاکستان میں زراعت بہت بڑا شعبہ ہے جبکہ ساحلی پٹی خاص کر سی پیک جیسے اہم منصوبوں، ریکوڈک، سیندک سمیت دیگر معدنی وسائل میں دنیا کی کمپنیاں سرمایہ کاری کرسکتی ہیں بعض منصوبوں پر بیرونی سرمایہ کاری کی جارہی ہے جس سے معاشی میدان میں پاکستان آگے بڑھ رہا ہے۔
اب صف اول کے عالمی مالیاتی جریدے بیرن نے اقتصادی میدان میں پاکستان کی کارکردگی کو ’معاشی کرشمہ‘ قرار دیا ہے۔
معروف عالمی جریدے وال اسٹریٹ جرنل کی سسٹر آرگنائزیشن بیرن نے اپنی رپوررٹ میں کہا ہے کہ اگر سرمایہ کاروں نے پاکستان کی طرف توجہ نہ دی تو وہ پچھتائیں گے۔
رپورٹ میں کہاگیاہے کہ بھارت کے ساتھ حالیہ مسلح جھڑپ شاید پاکستان کی بحالی کو متاثر نہ کرے تاہم ملک کی اپنی کمزور معاشی بنیادیں مسئلہ بن سکتی ہیں۔
کراچی اسٹاک ایکسچینج انڈیکس 3 گنا ہو چکا ہے، مہنگائی تقریباً 40 فیصد سالانہ سے صفر کے قریب آگئی ہے، 2031 میں میچور ہونے والے یوروبانڈز کی قیمت ڈالر میں 40 سینٹ سے بڑھ کر 80 سینٹ ہو گئی ہے ۔
ساتھ ہی ابھرتی منڈیوں کے کمزورقرض خریدنے والی سینڈگلاس کیپیٹل مینجمنٹ سمجھتی ہے کہ پاکستان اب اتناخطرناک نہیں رہا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حالات نے شہباز شریف اور ان کے فوجی ساتھیوں کو اقتصادیات اور زندگی میں بہترین ترغیبوں میں سے ایک عطا کی ہے۔
ماہر اقتصادیات کے مطابق موجودہ بہتر صورتحال کا شہباز شریف اور ان کے رفقا ء کو کچھ کریڈٹ ملنا چاہیے۔
پاکستان کی موجودہ استحکام کی کوششیں 23-2022 میں قریب قریب دیوالیہ ہونے کے تجربے سے شروع ہوئیں، اس وقت اکاؤنٹ کا توازن مثبت ہے۔
والٹن کیپیٹل مینجمنٹ کی چیف انویسٹمنٹ آفیسر ایلسن گراہم نے تبصرہ کیاکہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے سود کی شرح 10 فیصد سے بڑھا کر 22 فیصد کر دی، جس سے ملک کساد بازاری میں تو چلا گیا لیکن مہنگائی پر قابو پا لیا گیا۔ بیرن نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہاہے کہ استحکام ایک بات ہے لیکن ترقی کچھ اور ہے، پاکستان کا آئی ایم ایف پروگرام ایسی اصلاحات کا مطالبہ کرتا ہے جو طاقتور طبقے کے مفادات یا عام آبادی کے ساتھ مقبول نہیں ہوں گے۔
پاکستان کواپنی ٹیکس آمدن بڑھانے اوربجلی کی سبسڈی میں کٹوتی جیسے مشکل کام کرنے ہیں۔
بہرحال پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے مزید اقدامات کی ضرورت ہے اور معاشی اصلاحات خاص کر ٹیکس نیٹ کو بڑھانا ناگزیر ہے ۔
بہت ساری کمپنیاں اور شخصیات سرمایہ کاری کے ذریعے منافع کما رہی ہیں مگر ٹیکس نہیں دے رہے، اشرافیہ کو ٹیکس نیٹ میں لانا ضروری ہے تاکہ ٹیکس اہداف کا حصول ممکن ہوسکے جبکہ ملکی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے عالمی منڈیوں تک رسائی بھی ضروری ہے۔
زراعت پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہو جو ملکی ترقی کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔
امید ہے کہ موجودہ حالات کے پیش نظر حکومت معیشت کی بہتری کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھائے گی تاکہ مستقبل میں ملکی معیشت مزید مضبوط ہوسکے۔
Leave a Reply