|

وقتِ اشاعت :   4 hours پہلے

پشتون: بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ بلوچ اور پشتون دو محکوم، برادر و ہمسایہ اقوام ہیں۔
دونوں اقوام کی بھائی چارگی کی ہزاروں سال پرانی شاندار تاریخ رہی ہے۔

تاریخ کے اوراق کو پلٹا جائے تو سکھ جارحیت سے لے کر انگریز سامراج اور اس کے بعد بھی بلوچ و پشتون اقوام بیرونی یلغار کے خلاف ایک جان دو قالب کا منظر پیش کرتے رہے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ دور کے دشواریوں کے پیش نظر بھی دونوں اقوام کو اتحاد و اتفاق کی اشد ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ دنوں پشتون طلبا تنظیموں کی جانب سے ہونے والا پریس کانفرنس افسوسناک اور برادر اقوام کو آپس میں دست گریبان کرنے کی سازش ہے۔

یہاں ہم یہ واضح کر دیں کہ بحیثیتِ تنظیم بی ایس او کا کسی بھی سرکاری ادارے اور بیوروکریسی سے کسی قسم کا مفاد یا سروکار نہیں ہے۔
لیکن کمیشن کے نتائج کو بنیاد بنا کر لسانی تعصب پرستی کو ہوا دینا اور اس طرح اپنے ڈوبتے ہوئے سیاسی ساکھ کو بچانے کی ناکام کوشش کرنا شرمناک عمل ہے۔

ایک جانب انہی طلبا تنظیموں کا یہ مؤقف ہے کہ تعلیمی اداروں، ہاسٹلز، سرکاری ملازمتوں سمیت ہر شعبہ ہائے زندگی میں ضلعی کوٹہ ختم کرکے صوبائی میرٹ رائج کیا جائے۔
جب کہ دوسری جانب جہاں کہی بھی بلوچ آبادی میں اکثریت ہونے کی وجہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں تو وہ وہاں انہیں بد عنوانی نظر آتی ہے اور یہ بالواسطہ یا بلا واسطہ کوٹہ سسٹم کی بات کرتے ہیں۔

ایک طرف تو ان کے جھوٹے دعوے کے مطابق شال ڈویڑن میں پشتون اکثریتی آبادی ہے اور وہاں پشتون امیدواران کے کامیابی پر انہیں کوئی اعتراض نہیں۔
جب کہ دوسری جانب بلوچ اکثریتی سبی ڈویڑن میں بلوچ امیدواران کی کامیابی پر انہیں اعتراضات ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان نام نہاد قوم پرستوں کا ہمیشہ یہ دعویٰ رہتا ہے کہ انگریز سامراج کی جانب سے قائم کردہ برطانوی بلوچستان نامی مصنوعی صوبے میں ان کی اکثریت ہے۔
جب کہ ان کا یہ دعویٰ سورج کو انگلی سے چھپانے کا مترادف ہے۔
ڈیرہ بگٹی، کوہلو، شال، سبی، نوشکی و چاغی جیسے بلوچ اکثریتی علاقے بھی اس مصنوعی صوبے کا حصہ تھے۔

تاریخی پشتون وطن پر نہ پہلے ہمارا کوئی دعویٰ تھا نہ اب ہے۔
بلوچ کبھی بھی توسیع پسند قوم نہیں رہی ہے۔
ان کا یہ دعویٰ کہ بلوچستان میں جعلی مردم شماری کے ذریعے بلوچ قوم کو اکثریتی قوم بنایا گیا ہے خود ان کے خلاف چارج شیٹ ہے۔
آخری مرتبہ جب مردم شماری ہوئے تو ن لیگ کے حکومتی کابینہ میں انہی جماعتوں کے وزراء￿ مراعات لوٹ رہے تھے۔

آخر میں ان کا کہنا تھا کہ پشتونوں کے ساتھ بحیثیتِ قوم نہ ہمارا تنازعہ ہے اور نہ ہی دونوں اقوام تاریخ کے اس موڑ پر کسی تنازعے کا متحمل ہوسکتے ہیں۔
لیکن پشتون قوم کے نمائندگی کا دعوے دار اس طرح کے غیر سیاسی غیر ذمہ دارانہ بیانیہ رکھتے ہوئے پشتون قوم کا خیر خواہ نہیں ہوسکتے۔
ہم یہ واضح کر دیں کہ بلوچ وطن کی تاریخی جغرافیائی حیثیت کو تبدیل کرنے کی ہر خواہش کا ہم بھرپور جواب دیں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *