|

وقتِ اشاعت :   5 hours پہلے

ملک کے چھوٹے صوبوں خاص کر بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے کا بجٹ بہت کم ہے جبکہ دیگر صوبوں کو اپنے وسائل سے محاصل کے ساتھ بجٹ میں بھی ان کے لیے بڑی رقم ہوتی ہے۔
بلوچستان کا بجٹ بمشکل پنجاب کے چند اضلاع کے ترقیاتی بجٹ کے برابر ہے حالانکہ بلوچستان میںبڑے منصوبے چل رہے ہیں ،سوئی گیس میں اچھا خاصا منافع ہورہا ہے، سی پیک جیسے بڑے منصوبے کی وجہ سے چین بڑی سرمایہ کاری کررہا ہے بلوچستان سے اربوں روپے کمائے جارہے ہیں مگر بلوچستان کو اس کا جائز حق نہیں دیا جاتا۔
اب صوبوں کی طرف 161 ارب روپے کے بجلی واجبات این ایف سی ایوارڈ سے کاٹنے کی تجویز پر غور کیا جارہا ہے شاید دیگر صوبے اس مالی بوجھ کو برداشت کرسکیںمگر بلوچستان نہیں۔
گزشتہ روز سینیٹر محسن عزیز کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی پاور کے اجلاس میں صوبوں کی طرف بجلی واجبات قومی مالیاتی ایوارڈ سے کاٹنے کی تجویز پر غور کیا گیا۔
ایڈیشنل سیکریٹری پاور ڈویژن نے کہا کہ سی سی آئی نے مالیاتی کمیشن سے صوبوں کے بجلی بقایاجات کٹوتی کی منظوری دی، وزارت خزانہ، پاور ڈویژن نے صوبوں کے ساتھ اس کا طریقہ کار بنا لیا ہے، اس مد میں صوبوں سے161 ارب روپے کی وصولی کرنی ہے، صوبوں نے31 مارچ تک 161 ارب روپے کے واجبات ادا کرنے ہیں۔
حکام پاور ڈویژن نے کہا کہ سندھ نے 68 ارب روپے، پنجاب نے 42 ارب روپے ادا کرنے ہیں، بلوچستان نے41 ارب روپے، خیبر پختونخوا نے 10 ارب روپے ادا کرنے ہیں، پنجاب کے علاوہ باقی صوبوں سے وصولی میں مشکلات ہیں، یہ گزشتہ تین سال کے واجبات ہیں، پنجاب کے علاوہ باقی صوبوں نے واجبات کی تصدیق کا عمل 2 سال سے روک رکھا ہے۔
سینیٹر محسن عزیز نے سوال کیا کہ جب صوبے واجبات کو ری کنسائل نہیں کر رہے تو تسلیم کون کرے گا؟ جس کے جواب میں حکام پاور ڈویژن نے کہا کہ یہ واجبات متعلقہ ڈسکوز کی طرف سے تسلیم شدہ ہیں۔
وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا کہ واجبات کی 25 فیصد ایٹ سورس کٹوتی کی اجازت مشترکا مفادات کونسل نے دی ہے، باقی ری کنسائل واجبات کی بعد میں وصولی کی جاتی ہے، کٹوتی صرف ری کنسائل اکاؤنٹس سے ہی ہو سکتی ہے، ہم نے اس معاملے کو وزارت خزانہ کے ساتھ اٹھایا ہوا ہے۔
سینیٹر محسن عزیز نے پوچھا کہ بجلی ٹیرف میں 7 روپے 41 پیسے کمی کس طرح آتی ہے؟ جس کے جواب میں پاور ڈویژن کے حکام نے کہا کہ سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ میں 2 روپے37 پیسے فی یونٹ کمی ہوئی، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ ایک روپے 13پیسے کمی ہوئی، پیٹرولیم لیوی سے 2 روپے 10 پیسے اور دیگر سے ایک روپے81 پیسے کی کمی ہوئی۔
نیپرا کے چیئرمین وسیم مختار نے کہا کہ دوسری اور تیسری سہ ماہی میں کمی پاور پلانٹس سے معاہدے ختم کرنے کے باعث ہوئی، دیگر آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی سے بھی ٹیرف میں کمی ہوئی، یہ بچت مستقل بنیادوں پر ہے۔
سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کا ریلیف تو مستقل نہیں ہے، جس کے جواب میں چیئرمین نیپرا نے کہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہوا ہے، اس سال سردیوں میں برف نہیں پڑی اور ڈیموں میں پانی کم ہے، اپریل میں پن بجلی کی پیداوار میں کمی آئی ہے، اس وجہ سے اپریل میں ایک روپے 23 پیسے فیول ایڈجسٹمنٹ مثبت ہوگی۔
چیئرمین کمیٹی سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ بجلی قیمت میں یہ کمی تو وزیراعظم کے بجلی ٹیرف میں کمی کے اعلان کے برعکس عارضی ہے، یہ ریلیف تو عارضی ریلیف ہے، جس پر چیئرمین نیپرا بولے کہ بجلی ٹیرف میں ایکسچینج ریٹ اور شرح سود میں معمولی تبدیلی بھی بڑا اثر ڈالتی ہے، یہ دونوں چیزیں حکومت، پاور ڈویژن اور نیپرا کے کنٹرول میں نہیں ہوتیں، پن بجلی کی پیداوار میں کمی سے بجلی ٹیرف میں اثر پڑے گا۔
وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے تحت پیٹرولیم لیوی آئندہ سال بھی جاری رہے گی، آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات مکمل ہو چکے ہیں، اب اسی کی بنیاد پر بنیادی ٹیرف میں تبدیلی کی جائے گی، پاور ٹیرف پر سالانہ نظر ثانی میں بجلی کی طلب اہم کردار ادا کرتی ہے۔
سینیٹر محسن عزیز نے سوال کیا کہ اب بجلی سرپلس ہے تو پیک آور آف پیک ٹیرف کیوں چلایا جا رہا ہے؟ جس پر وفاقی وزیر نے جواب دیا کہ پیک آورز میں مہنگے پاور پلانٹس چلائے جاتے ہیں جس کے باعث ٹیرف بڑھ جاتا ہے، اوسط ٹیرف چلائیں تو انڈسٹری کیلئے ٹیرف بڑھ جائے گا۔
محسن عزیز نے کہا کہ کیپیسٹی چارجز کے ہوتے ہوئے پیک آورز نہیں ہونے چاہئیں، کیپیسٹی چارجز ادا کیے جا رہے ہیں۔ اویس لغاری نے کہا کیپیسٹی چارجز اب بھی ادا کیے جا رہے ہیں، ہم نے انڈسٹری کے ریٹ 31 فیصد کم کیے جس سے انڈسٹری چلی ہے۔
بہرحال گرمی اور سردی دونوں موسموں میں بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ اب بھی جاری ہے جبکہ گرمیوں میںلوڈ شیڈنگ میں چند گھنٹوں کا مزید اضافہ کیا جاتا ہے۔
بلوچستان میں زراعت کا شعبہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے متاثر ہے اس لئے سولر سسٹم کا پلان لایا گیا مگر بلوچستان جیسے پسماندہ اور کم آمدن والے صوبے پر مالی بوجھ نہ ڈالا جائے بلکہ اسے مزید ریلیف دیا جائے۔ این ایف سی ایوارڈ میں بلوچستان کو مکمل رقم کی فراہمی یقینی بنائی جائے، کٹوتی سے مالی امور متاثر ہوں گے جس کے اثرات صوبے کے ترقیاتی منصوبوں اور دیگر مالی اخراجات پر بھی پڑینگے لہذا بلوچستان کو زیادہ رقم دی جائے تاکہ صوبے میں ترقیاتی منصوبوں سمیت دیگر معاملات متاثر نہ ہوں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *