کوئٹہ:پبلک اکانٹس کمیٹی بلوچستان اسمبلی کا اجلاس چیئرمین اصغر علی ترین کی زیر صدارت منعقد ہوا، جس میں محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ (پی ایچ ای)کے مالی حسابات اور جنگلات و آبی وسائل کے منصوبوں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
اجلاس میں کمیٹی کے ارکان انجینئر زمرک خان اچکزئی، زابد علی ریکی، غلام دستگیر بادینی، فضل قادر مندوخیل، سیکرٹری پی ایچ ای ڈپارٹمنٹ عمران گچکی، ڈی جی آڈٹ بلوچستان شجاع علی، ایڈیشنل اکائونٹنٹ جنرل حافظ نورالحق، ایڈیشنل سیکرٹری پی اے سی سراج لہڑی ،ڈائیریکٹر آڈٹ ڈاکٹر فیض محمد جعفر, چیف اکانٹس آفیسر سید ادریس آغانے شرکت کی، جبکہ قائد حزب اختلاف یونس عزیز زہری اور مولانا ہدایت الرحمن کو خصوصی دعوت پر اجلاس میں مدعو کیا گیا۔اجلاس کے دوران ڈی جی آڈٹ بلوچستان نے نومبر 2022 میں محمکہ پی ایچ ای گوادر کے مالیاتی امور پر کی گئی خصوصی آڈٹ رپورٹ پیش کی، جس کا دائرہ کار مالی سال 2018 سے 2021 تک پھیلا ہوا تھا۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ محکمے نے 590 کروڑ روپے سے زائد کے اخراجات کیے، مگر واجب الادا رقوم کو حسابات میں درج نہیں کیا گیا، جس سے شفافیت پر سنگین سوالات اٹھتے ہیں۔مزید یہ بھی انکشاف ہوا کہ انکم ٹیکس کی کٹوتی نہیں کی گئی، اور تقریبا 24 کروڑ روپے کی رقم بغیر کسی قانونی کٹوتی کے جاری کی گئی۔ ٹینڈرز کے بغیر مختلف کمپنیوں کو دیے گئے کاموں کی مالیت تقریبا 492 کروڑ روپے تک پہنچ گئی، جو قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔
آڈٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی کہ خشک سالی کے دوران پانی کی فراہمی کے لیے جو اسکیمیں چلائی گئیں، ان پر بھی بے ضابطگیوں کے شواہد موجود ہیں، جن کی مالیت 38 کروڑ روپے سے زائد ہے۔ایندھن، آئل، لبریکنٹس اور مرمت کے سامان کی خریداری میں بھی بے قاعدگیاں سامنے آئیں۔ گوادر کے ایگزیکٹو انجینئر نے مختلف کمپنیوں سے کروڑوں روپے کی خریداری کی، لیکن اس کا کوئی واضح ریکارڈ موجود نہیں، جس کی بنیاد پر ان اخراجات کو مشکوک قرار دیا گیا۔
کمیٹی نے اس پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مکمل ریکارڈ فراہم نہ کرنے پر متعلقہ افسران کے خلاف انکوائری کی جائے گی۔
چیئرمین اصغر علی ترین نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عوامی پیسے کی حفاظت ہماری اولین ترجیح ہے، اور جو شخص قومی خزانے سے کھیلتا ہے،
اسے ہرگز معاف نہیں کیا جائے گا۔ ہم وضاحت کا ایک موقع ضرور دیں گے، مگر اس کے بعد سخت کارروائی ہو گی۔
مولانا ہدایت الرحمن نے کہا کہ گوادر کے پانی کے مسئلے پر اربوں روپے خرچ ہوئے، مگر اگر یہ رقوم ایمانداری سے خرچ ہوتیں تو آج گوادر میں سنگاپور سے بذریعہ جہاز پانی دستیاب ہوتا۔ فضل قادر مندوخیل نے تجویز دی کہ معاملہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے حوالے کیا جائے،
جبکہ دیگر ارکان نے کہا کہ پہلے مکمل حقائق سامنے لا کر چیئرمین اختیارات کے تحت فیصلہ کریں۔اجلاس میں منگی ڈیم منصوبے کی آڈٹ رپورٹ بھی پیش کی گئی، جس میں واضح کیا گیا کہ منصوبہ جون 2022 میں مکمل ہونا تھا،
مگر اس میں غیر معمولی تاخیر اور لاگت میں 42 فیصد اضافہ ہوا۔ آڈٹ کے مطابق منصوبے کی ابتدائی لاگت سات ارب سے شروع ہوا جو کہ اب اتھارہ ارب سے تجاوز کر چکا ہے اور مکمل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔
یہ اضافہ مشاورتی ادارے کی نااہلی اور ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے ہوا، کیونکہ ابتدائی پی سی ون میں کئی اہم پہلوں کو نظر انداز کیا گیا تھا۔ اور اب اس میں بار بار نظر ثا نی ہو رہا ہے
ڈی جی آڈٹ نے بتایا کہ محکمے نے آڈٹ کو تاحال پیش رفت رپورٹ فراہم نہیں کی، جس پر کمیٹی نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔ چیئرمین اصغر علی ترین نے کہا کہ یہ محکمانہ نااہلی کی بدترین مثال ہے کہ اتنے بڑے منصوبے کے باوجود عوام کو ایک گلاس صاف پانی بھی دستیاب نہیں۔
انہوں نے اعلان کیا کہ وہ خود کمیٹی ارکان کے ساتھ منگی ڈیم کا دورہ کریں گے تاکہ زمینی حقائق کا جائزہ لیا جا سکے۔منصوبے کے پراجیکٹ ڈائریکٹر نے اجلاس میں بتایا کہ اگر مطلوبہ فنڈز جاری کر دیے جائیں تو منصوبہ دسمبر 2025 تک مکمل کیا جا سکتا ہے۔
اس پر چیئرمین نے چیف سیکریٹری بلوچستان کو فوری طور پر فنڈز جاری کرنے کی ہدایت دینے کے لیے خط لکھنے کا فیصلہ کیا، اور ساتھ ہی خبردار کیا کہ اگر منصوبہ مقررہ وقت میں مکمل نہ ہوا تو اس پر دوبارہ خصوصی آڈٹ کرایا جائے گا۔
اس دوران انکشاف ہو ا کہ گوادر کے عوام کو پانی مہیا کرنے کے لئے 1433740 چودہ لاکھ سے ذائد لیٹر ڈیزل استعمال ہوا ، ان تیل اور ڈیزل وغیرہ کو ٹنکرز اور بوزرز کو فراہم کی گئی، جن کو کہاں اور کس طرح ذخیرہ کیا گیا۔ اس کی بھی کوئی اندراج نہیں، مزید ان کی لاگ بک میں کوئی معقول تفصیل نہیں ہے۔ جن کی بیرا رولز کی خلاف ورزی کرتے ہو خریداری کی گئی۔
چیئرمین نے اجلاس کے اختتام پر کہا کہ کمیٹی نہ صرف مالی بدعنوانی کو بے نقاب کرے گی بلکہ سخت قانونی کارروائی بھی عمل میں لائی جائے گی تاکہ بلوچستان کے عوام کا اعتماد بحال ہو۔
Leave a Reply