پاکستان میں ہر سال کم عمری کی شادیاں رپورٹ ہوتی ہیں جو 20 سے 25 فیصد کے قریب ہے جو کہ تشویشناک بات ہے۔
18 سال سے کم عمری کی شادی نوجوانوں کی زندگی میں بہت سارے مسائل پیدا کرتی ہے جس عمر میں معیاری تعلیم اور ایک بہترین مستقبل کی پلاننگ کرنی چاہئے مگر افسوس بچوں کی خواہشات کے برعکس بعض علاقوں میں وٹہ سٹہ سسٹم اور 18 سال سے کم عمر میں بچوں کی شادی کرائی جاتی ہے۔
اب یہ رجحان صرف قبائلی علاقوں تک محدود نہیں بلکہ بڑے شہروں میں بھی یہ معاملات رپورٹ ہورہے ہیں۔
ہر سال 19 لاکھ لڑکیوں کی شادی کم عمری میں کردی جاتی ہے۔
دنیا بھر میں کم عمر لڑکیوں کی شادیوں کی فہرست میں پاکستان چھٹے نمبر پر ہے۔
بچیوں کی کم عمر میں شادیوں پر ہماری سوسائٹی تقسیم نظر آتی ہے جس پر مختلف مکاتب فکر الگ الگ سوچ رکھتے ہیں۔
ہماری یہاں کی سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی بچیوں کی کم عمری میں شادی کی کھل کر مخالفت کرتی ہے جسے انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کے اہم مسائل میں سے ایک سمجھتا ہے۔
بچیوں کی تعلیم اور بہترین معیار زندگی پر خصوصی توجہ دینے کے ساتھ کم عمری میں شادی کے تدارک کے حوالے سے سخت قوانین کی حمایت کرتے ہیں جبکہ مذہبی جماعتوں کی اس حوالے سے بالکل ہی الگ رائے ہے۔
چند روز قبل ہی اسلامی نظریاتی کونسل نے خیبرپختونخوا ہ حکومت کی طرف سے ارسال کردہ ‘امتناع ازدواجِ اطفال بل 2025’ اور قومی اسمبلی کی طرف سے پاس کردہ ‘ کم سنی کی شادی کے امتناع کا بل’ غیر اسلامی قرار دے دیا۔
چیئرمین ڈاکٹر علامہ محمد راغب حسین نعیمی کی زیر صدارت اسلامی نظریاتی کونسل کا اجلاس ہوا، اجلاس کے جاری کردہ اعلامیے میں کونسل نے قرار دیا کہ عمر کی حد مقرر کرنا، اٹھارہ سال سے کم عمر کی شادی کو زیادتی قرار دینا اور اس پر سزائیں مقرر کرنا اسلامی احکام سے مطابقت نہیں رکھتا، تاہم کونسل نے کم سنی کی شادیوں کی حوصلہ شکنی پر زور دیتے ہوئے اس بل کو مسترد کردیا۔
کونسل کا کہنا تھا کہ اس بل کو قومی اسمبلی یا سینیٹ کی طرف سے غور کے لیے ارسال نہیں کیا گیا۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس میں نکاح سے قبل تھیلیسیمیا کے ٹیسٹ کو لازمی قرار دینے کے بجائے اسے اختیاری رکھتے ہوئے شعور اجاگر کرنے پر زور دیا گیا۔
دوسری جانب صدر مملکت آصف علی زرداری نے بچوں کی شادی کی ممانعت کے بل پر دستخط کر دئیے۔
قانون کے مطابق نکاح خواں کوئی ایسا نکاح نہیں پڑھائے گا جہاں ایک یا دونوں فریق 18 سال سے کم عمر ہوں، خلاف ورزی کرنے پر نکاح خواں کو ایک سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ ہو سکتا ہے۔ 18 سال سے بڑی عمر کا مرد اگر کم عمر لڑکی سے شادی کرتا ہے تو اسے 3 سال تک قید بامشقت ہو گی۔
بچوں کی شادی کی ممانعت کا بل قومی اسمبلی میں شرمیلا فاروقی نے پیش کیا تھا جبکہ سینیٹ میں یہ بل شیری رحمان نے پیش کیا تھا۔
قانون میں کہا گیا ہے کہ عدالت کو علم ہو کہ کم عمر بچوں کی شادی کی جا رہی ہے تو وہ ایسی شادی کو روکنے کے لیے حکم جاری کرے گی، عدالت کو اطلاع دینے والا فریق اپنی شناخت چھپانا چاہے تو عدالت اسے تحفظ دے گی۔
بہرحال آئین کا آرٹیکل 25 (2) اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ریاست بچوں کے تحفظ کے لیے خصوصی انتظامات کرسکتی ہے۔
ملک میں کم عمری کی شادی کیلئے ایک مکمل رائے عامہ ضروری ہے خاص کر بچوں کے مستقبل کے تحفظ کو یقینی بنانا ضروری ہے۔
پاکستان میں کم عمری کی شادیوں سے ملک میں غربت میں اضافہ ہو رہا ہے اور خاص طور پر بچیوں کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
کم عمر لڑکیاں جنسی اور جسمانی استحصال، طبی پیچیدگیوں اور دیگر جسمانی اور سماجی منفی نتائج جیسے خطرات سے دوچار ہیں، اس معاملے پر عوام میں بیداری پیدا کرنا ضروری ہے خاص طور پر ان علاقوںمیں جہاں کم عمری میں شادیوں کا تناسب بہت زیادہ ہے۔
بہرحال حکومتی سطح پر بچیوں کی شادی کی ممانعت کے بل سے مثبت نتائج کی برآمدگی کیلئے ٹھوس اقدامات بھی اٹھانے ضروری ہیں۔
عوام میں اس بات کا لازمی شعور ہونا چاہیے کہ شادی اْس وقت کی جائے جب دونوں لڑکا اور لڑکی جسمانی اور ذہنی طور تیار ہوں خاص طور پر اگلی نسل کو جنم دینے کے لیے ان کا ہر لحاظ سے صحت مند ہونا لازمی ہے۔
ملک میں کم عمری کی شادی سے درپیش چیلنجز، حکومتی سطح پر اقدامات!

وقتِ اشاعت : 1 day پہلے
Leave a Reply