سوات : پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین اور تحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ، رکنِ قومی اسمبلی محمود خان اچکزئی نے بنوں جرگے کی تسلسل میں ہزارہ، کبل، سوات میں ایک بڑے عوامی جرگے سے خطاب کرتے ہوئے ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال، آئینی بحران، پشتون قوم کی حالتِ زار اور ریاستی پالیسیوں پر شدید تنقید کی۔
انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ پاکستان کی بقاء ، ترقی اور خوشحالی صرف اور صرف آئین کی بالادستی میں مضمر ہے اور اس اصول پر کسی قسم کا سمجھوتہ ممکن نہیں۔محمود خان اچکزئی نے کہا کہ دنیا کی ہر قوم کی طرح پشتون قوم کو بھی اپنے وسائل پر مکمل حق حاصل ہے۔ اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ”امریکہ فرسٹ” کہنے کا حق ہے تو ہمیں بھی ”پشتون فرسٹ” کہنے کا حق حاصل ہے۔ یہ مطالبہ نہ صرف بین الاقوامی قوانین بلکہ اسلامی اصولوں کے بھی عین مطابق ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کو توڑنا نہیں چاہتے، لیکن غلامی کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں کریں گے۔ برابری، مساوی مواقع اور ترقی ہمارا آئینی اور انسانی حق ہے۔
محمود خان اچکزئی نے کہا کہ یہ سرزمین ہمیں خیرات میں نہیں ملی، بلکہ پشتون قوم اس دھرتی پر گزشتہ پانچ ہزار سال سے آباد ہے۔ ریاستی اشرافیہ اور مقتدر حلقوں کو خبردار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اللہ کے سوا کسی طاقت کے سامنے سر جھکانا اسلام، وحدت اور ایمان کے بنیادی اصولوں کے منافی ہے۔
انہوں نے پشتونوں کی بقا کو سنگین خطرات لاحق قرار دیتے ہوئے کہا کہ خوشحالی، امن، انصاف، سیاسی خودمختاری اور قانون کی حکمرانی کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔محمود خان اچکزئی نے کہا کہ انسانیت ہماری اولین ترجیح ہے۔
مذہب، رنگ، نسل، قومیت یا مسلک کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیازی سلوک قابل مذمت ہے۔ انہوں نے اس ستم ظریفی کی نشاندہی کی کہ پشتون قوم کو عالمی طاقتوں کی سیاسی و معاشی جنگوں اور ریاستی دفاعی و تزویراتی پالیسیوں کی بھینٹ چڑھایا گیا ہے۔ آج پشتون قوم کو شدت پسند، انتہا پسند اور دہشتگرد کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، حالانکہ وہ خود سب سے زیادہ متاثر فریق ہیں۔محمود خان اچکزئی نے فلسطینیوں اور کردوں کے ساتھ پشتونوں کی حالت کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ انگریز نے آزادی کے جنگوں کے انتقام لینے کے خاطر اپنے دور میں پشتون قوم کو جغرافیائی اور انتظامی طور پر تقسیم کیا، آج پاکستان نے اس تقسیم کو نہ صرف برقرار رکھا ہے بلکہ اسے مزید بڑھا دیا ہے۔
محمود خان اچکزئی نے کہا کہ مردان، چارسدہ، صوابی سے لے کر سوات تک کا خطہ بدھ مت تہذیب کا گہوارہ اور مقدس مقام رہا ہے، اور آج بھی سوات مذہبی اور روایتی سیاحت کے لیے عالمی سطح پر شہرت رکھتا ہے۔
تاہم، امن و امان کی صورتحال، جو کہ ریاستی پالیسیوں کا نتیجہ ہے، نے اس سیاحت کو بری طرح متاثر کیا ہے اور اس خطے کو آمدن اور ترقی کے ایک اہم ذریعے سے محروم کر دیا ہے۔محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ریاستی اشرافیہ نے آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے تو لیے، لیکن عوام کو آج تک یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ قرضے کہاں اور کیسے خرچ ہوئے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ان قرضوں کے بدلے میں SIFC (سپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل) کے ذریعے مقامی وسائل عالمی سرمایہ کاروں کے حوالے کیے جا رہے ہیں۔
محمود خان اچکزئی نے 8فروری 2024 کے عام انتخابات پر کڑی تنقید کرتے ہوئے الزام لگایا کہ یہ انتخابات ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت دھاندلی کا شکار بنائے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ من پسند امیدواروں کے ناموں کے سامنے صرف ٹک مارک لگا کر انہیں منتخب کیا گیا،
اور اس کے بدلے میں 70 کروڑ روپے تک وصول کیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں جو شخص بکنے سے انکار کرے، آئین اور پارلیمان کی بالادستی کی بات کرے، اسے غدار اور ملک دشمن قرار دیا جاتا ہے۔محمود خان اچکزئی نے اعلان کیا کہ عید الاضحیٰ کے بعد تحریک تحفظ آئین پاکستان کے پرچم تلے ایک ملک گیر عوامی تحریک کا آغاز کیا جائے گا، جس کا مقصد آئین، جمہوریت اور عوامی خودمختاری کی بحالی ہو گی۔سوات کے عوامی جرگے میں مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما، سماجی تنظیموں کے نمائندگان، دانشور، وکلاء، اساتذہ اور علاقائی مشران نے شرکت کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
جرگے کے اختتام پر ایک متفقہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں آئین کی بالادستی، ریاستی جبر کے خاتمے، اور پشتون عوام کے جائز سیاسی، معاشی و ثقافتی حقوق کے حصول کے لیے اجتماعی جدوجہد کا اعلان کیا گیا۔
Leave a Reply