بلوچستان اپنی جغرافیائی اہمیت اور وسائل کے باوجود دہائیوں سے مسائل و مشکلات کا شکار ہے۔
بلوچستان کو درپیش مسائل کوحل کرنے کیلئے ہردور میں بننے والی حکومتوں نے وعدے اور دعوے کئے مگر مسائل حل ہونے کی بجائے پیچیدہ ہوتے گئے۔
بلوچستان کے اسٹیک ہولڈرز اور وفاق کے درمیان خلیج بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہے نیز بلوچستان کے وسائل سے یہاں کے عوام کو محروم رکھنا، وفاقی حکومتوں کی جانب سے فنڈز کی کمی، منصوبوںکی تکمیل میں عدم دلچسپی سمیت دیگر معاملات بھی شامل ہیں۔
بلوچستان کے اسٹیک ہولڈرز اور عوام کے ساتھ مضبوط اعتماد سازی ضروری ہے جبکہ بلوچستان کے وسائل پر مکمل دسترس، منصوبوں سے محاصل، عوامی مفاد سے جڑے اہم منصوبوں کی فراہمی کیلئے اقدامات اٹھانا ضروری ہے۔
موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومت بلوچستان کی ترقی کیلئے پر عزم ہیں اور بہت سے مسائل حل کرنے سمیت اہم منصوبوں کا آغاز بھی کیا گیا ہے جن سے بہتری آرہی ہے۔
ترقی کے اسی عمل کو برقرار رکھتے ہوئے وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے گزشتہ روز دورہ کوئٹہ کے موقع پر بلوچستان گرینڈ جرگے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ مالی سال میں 1000 ارب روپے کے ترقیاتی پروگرام میں سے بلوچستان کا حصہ 250 ارب روپے ہو گا۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں صوبوں اور وفاقی حکومت کے لیے وفاق سے چلنے والا پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام مجموعی طور پر ایک ٹریلین روپے کا ہو گا اور بلوچستان کو 250 ارب روپے ملیں گے، جو کل پی ایس ڈی پی کا 25 فیصد ہے۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ میرے نزدیک یہ بھی ایک چھوٹی سی رقم لگتی ہے۔
تمام کوشش ہونا چاہیے کہ ترقیاتی پروگرام کے یہ فنڈز شفافیت کے ساتھ خرچ ہوں۔
گوادر، پسنی،چمن، قلعہ سیف اللہ، کوئٹہ ،جھل مگسی سمیت دیگر علاقوں میں ان وسائل کی ایک ایک پائی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے دیانتداری سے استعمال کی جانا چاہیے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے بلوچستان میں ماضی کے ترقیاتی منصوبوں پر بھی روشنی ڈالی، خاص کر کسانوں کے لیے 70 ارب روپے کے سولر اقدام اور این 25 ہائی وے کی تعمیر پر بات کی۔
گزشتہ ماہ وزیراعظم شہباز شریف نے اعلان کیا تھا کہ بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا ریلیف صارفین تک پہنچانے کے بجائے حکومت بچتی رقم این 25 ہائی وے کی تعمیر نو اور بلوچستان میں کچھی کینال منصوبے کے فیز ٹو کی تکمیل کے لیے استعمال کرے گی۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 2010 میں پنجاب نے بلوچستان کو این ایف سی میں 11 ارب روپے دئیے اور جو آج تقریباً 155-160 ارب روپے ہوں گے لیکن قومی یک جہتی کے لیے 1600 ارب روپے بھی زیادہ نہیں ہوں گے۔
بلوچستان کی وسعتیں زیادہ سرمایہ کاری کی متقاضی ہیں۔ بہرحال بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے وفاقی حکومت خاص کر وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے اعلانات خوش آئند ہیں مگر ترقی کے تسلسل کو جاری رکھنے کیلئے صوبے کے آئینی حقوق دینے ضروری ہیں۔
وسائل پر دسترس، میگا منصوبوں سے منافع بھی صوبہ کو ملنا چاہئے جس سے بلوچستان کے بہت سے مسائل خود ہی حل ہوجائینگے۔
وفاق جس طرح دیگر صوبوں کیلئے اہم منصوبے دے رہا ہے اسی طرح بلوچستان کو بھی منصوبے دینے کی ضرورت ہے جو بلوچستان کے عوام کا حق ہے۔
بلوچستان کی ترقی و مسائل کا حل، جائز حقوق کے ذریعے ممکن!

وقتِ اشاعت : 2 days پہلے
Leave a Reply