وفاقی حکومت نے 17 ہزار ، 573 ارب روپے کا بجٹ پیش کر دیا جس میں 6501 ارب روپے کا خسارہ ہے ، بجٹ میں 500 ارب کے اضافی ٹیکس لگا دیئے گئے۔
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد جبکہ پنشن میں 7 فیصد اضافہ کر دیا گیا ، دفاعی بجٹ میں 20 فیصد بڑھا دیا گیا ، دفاع کے لیے 2 ہزار 550 ارب روپے جبکہ سول انتظامیہ کے اخراجات کے لیے 971 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
بجٹ میں سالانہ 6 لاکھ روپے سے 12 لاکھ روپے تک تنخواہ لینے والوں کے لئے ٹیکس کی شرح 5 فیصد سے کم کر کے 1 فیصد کر دی گئی ، بارہ لاکھ آمدنی والے تنخواہ دار پر ٹیکس 30 ہزار سے کم کرکے 6 ہزار کر دیا گیا۔ 22 لاکھ روپے تک تنخواہ لینے والوں کے لئے کم سے کم ٹیکس کی شرح 15 فیصد کے بجائے 11 فیصد ، 22 لاکھ سے 32 لاکھ روپے تک تنخواہ والوں کے لئے ٹیکس کی شرح 25 فیصد سے کم کر کے 23 فیصد کر دی گئی۔ آئندہ مالی سال کے دوران جی ڈی پی گروتھ کا ہدف 4.2 فیصد ، مہنگائی کا ہدف ساڑھے 7 فیصد ، برآمدات 35 ارب 30 کروڑ ڈالر ، 65 ارب 20 کروڑ ڈالر جبکہ ترسیلات زر کا ہدف 39 اعشاریہ 4 ارب ڈالرمقرر کیا گیا ہے۔
جبکہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کا منفی 0.5 فیصد رکھا گیا ہے۔
اس خسارے کا مالیاتی تخمینہ 2.1 ارب ڈالر ، برآمدات کا ہدف 35 ارب 30 کروڑ ڈالر مقرر کیا گیا ہے۔ بجٹ خسارہ 6501 ارب ، قرضوں پر سود کی ادائیگی پر 8207 ارب روپے خرچ ہونگے۔
پنشن کے اخراجات کے لیے ایک ہزار 55 ارب ، بجلی اور دیگر شعبوں کے لیے سبسڈی کے لیے ایک ہزار 186 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
وفاقی حکومت کی خالص آمدنی 11072 ارب روپے ہو گی جبکہ ٹیکس ریونیو کا ہدف 5147 ارب رپے ہو گا ، وفاقی محصولات میں صوبوں کا حصہ 8 ہزار 206 ارب ، گرانٹس کی مد میں ایک ہزار 928 ارب ، سود کی ادائیگی کے لیے 8207 ارب روپے رکھے گئے ہیں، وفاقی ترقیاتی بجٹ کا حجم 1,000 ارب روپے رکھا گیا ہے اور صوبوں کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کے لیے 2,869 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اہل ملازمین کو 30 فیصد ڈسپریٹی الائونس ،اراکین پارلیمنٹ کی ترقیاتی اسکیمز کے لیے 70 ارب 38 کروڑ ، صوبوں اور اسپیشل ایریاز کے لیے 253 ارب 23 کروڑ ، وفاقی وزارت تعلیم و پروفیشنل ٹریننگ کو 18 ارب 58 کروڑ ، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے لیے 82 ارب ،بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 716 ارب ، خیبر پختونخوا کے ضم اضلاع کے لیے80 ارب روپے مختص کر دیئے گئے ہیں۔
نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو 226 ارب 98 کروڑ روپے ، پاور ڈویژن کو 90 ارب 22 کروڑ ، آبی وسائل ڈویژن کو 133 ارب 42 کروڑ ، وزارتوں اور ڈویژنوں کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 682 ارب روپے اورحکومتی اداروں کے لیے 35 کروڑ ،وزیر اعظم یوتھ اسکل ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت 4.3 ارب مختص ہیں۔
سیلاب سے متاثرہ اسکولوں کی تعمیر کے لیے 3 ارب خرچ ہونگے۔ اس کے علاوہ دفاعی ڈویژن کے لیے 11 ارب 55 کروڑ روپے جبکہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے 39 ارب 48 کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
اسلام آباد میں کینسر اسپتال کے قیام کے لیے ایک اعشاریہ 7 ارب ، اسپتالوں میں ضروری آلات کی خریداری کے لیے 90 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں ،دیا مر اور بھاشا ڈیم کے لیے 32.7 ارب ، مہمند کے لیے 35.7 ارب، آواران، پنجگور سمیت بلوچستان کے دیگر 3 ڈیمز کے لیے 5 ارب ، کراچی میں پانی کے منصوبے کے فور کے لیے 3.2 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ بجٹ میں کارپوریٹ سیکٹر کو ریلیف دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
سالانہ بیس کروڑ سے پچاس کروڑ آمدنی پر سپر ٹیکس میں 0.5 فیصد کمی کا فیصلہ کیا گیا ، جائیداد کی خریداری پر ودہولڈنگ ٹیکس 4 فیصد سے کم کر کے اڑھائی فیصد کر دیا گیا ، دوسری سلیب میں 3.5 فیصد سے کم کر کے 2 فیصد ، تیسرے سلیب میں 3 فیصد سے کم کرکے 1.5 فیصد کر دیا گیا۔
علاوہ ازیں کمرشل جائیدادوں، پلاٹوں اور گھروںکے ٹرانسفرپر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کر دی گئی۔
دس مرلہ تک کے گھروں اور دو ہزار مربع فٹ کے فلیٹس پر ٹیکس کریڈٹ متعارف کرایا جائے گا جبکہ اسلام آباد میں جائیداد کی خریداری پر اسٹامپ پیپر ڈیوٹی 4 فیصد سے کم کرکے 1 فیصد کر دی گئی۔
مقامی گاڑیوں کے انجن کی امپورٹ پرڈیوٹی 5 فیصد کم کر دی گئی، مقامی گاڑیوں کے خام مال اور سی کے ڈی پر ڈیوٹی 20 کے بجائے 15 فیصد ہو گی، ریڈیو براڈ کاسٹ ٹرانسمیٹرز پر ڈیوٹی 20 سے کم کرکے 15 فیصد، ٹی وی براڈ کاسٹ ٹرانسمیٹر پر ڈیوٹی 20 کے بجائے 15 فیصد ،وائرلیس مائیکرو فون پر کسٹم ڈیوٹی 20 سے کم کرکے 15 فیصد کر دی گئی۔
اس کے علاوہ اہل ملازمین کو 30 فیصد ڈسپریٹی ریڈکشن الاؤنس دینے اور مسلح افواج کے افسران اور سولجرز کیلئے سپیشل ریلیف الاؤنس دینے کا فیصلہ کیا گیا ،یہ اخراجات مالی سال 2025-26 کے دفاعی بجٹ سے پورے کیے جائیں گے ،معذور ملازمین کیلئے خصوصی کنوینس الاؤنس دیا جائے گا،خصوصی کنوینس الاؤنس ماہانہ 4 ہزار روپے سے بڑھا کر چھ ہزار روپے کر دیا گیا۔ بجٹ میں تمام گاڑیوں پر 18 فیصد عمومی ٹیکس کے نفاذ کا اعلان کر دیا گیا جبکہ سولر پینلز کو فروغ دینے کیلئے درآمدی سولر پینلز پر 18 فیصد ٹیکس لگانے کی تجویز دی گئی ہے۔
اس کے علاوہ آن لائن پلیٹ فارمز سے خریداری پر بھی 18 فیصد ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ غیر رجسٹرڈ کاروباروں کے خلاف سخت سزاؤں کو مزید بڑھانے کی تجویز ہے۔
ان میں بینک اکاؤنٹس کا منجمد کرنا، جائیداد کی منتقلی پر پابندی اور سنگین جرائم میں کاروباری جگہ کو سیل کرنا اور سامان کو ضبط کرنا شامل ہے۔
اس کے علاوہ پیٹرولیم مصنوعات پر کاربن لیوی لگانے کی تجویز دی گئی ہے۔
پٹرول، ہائی اسپیڈ ڈیزل اور فرنس آئل پر فی لیٹر 2.5 روپے کاربن لیوی عائد کی جائے گی۔ فاٹا، پاٹا کیلئے ٹیکس چھوٹ کا خاتمہ کر دیا گیا، فاٹا، پاٹا میں بننے والی اشیاء پر مرحلہ وار سیلز ٹیکس نافذ کیا جائے گا، آئندہ مالی سال 10 فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے
اس کے علاوہ لیوی کی مد میں مجموعی طور پر29 ارب 79 کروڑ ، فور جی لائسنس سے 22 ارب حاصل ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
امن و امان کے لیے 5 ارب 62 کروڑ ، کمیونٹی سروسز کے لیے ایک ارب 90 کروڑ ، سماجی خدمات کے لیے ایک ارب 58 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔
کسٹم ڈیوٹی کی مد میں 1588 ارب روپے ، سیلز ٹیکس کی مد میں 4753 ارب ، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 888 ارب اور پراپرٹی سے 519 ارب روپے ٹیکس وصولی کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
بجٹ میں صنعتی شعبے کے لیے 4.3 فیصد، خدمات کے شعبے کا ہدف 4 فیصد، مجموعی سرمایہ کاری کا ہدف 14.7 فیصد، فکسڈ انویسٹمنٹ کے لیے 13 فیصد، پبلک بشمول جنرل گورنمنٹ انویسٹمنٹ کا ہدف 3.2 فیصد اور پرائیویٹ انویسٹمنٹ کا ہدف 9.8 فیصد کی تجاویز سامنے آئی ہیں۔
آئندہ مالی سال نیشنل سیونگز کا ہدف 14.3 فیصد مقرر کرنے، اہم فصلوں کا ہدف 6.7 اور دیگر فصلوں کا ہدف 3.5 فیصد، کاٹن جننگ 7 فیصد، لائیو اسٹاک 4.2 فیصد، جنگلات کا ہدف 3.5 فیصد اور فشنگ کا ہدف 3 فیصد مقرر کرنے کی تجاویز دی گئی ہیں۔ اسی طرح نئے مالی سال کے لیے مینوفیکچرنگ کا ہدف 4.7 فیصد رکھنے، لارج اسکیل 3.5، اسمال اسکیل 8.9 اور سلاٹرنگ کا ہدف 4.3 فیصد رکھنے کی تجویز ہے۔
بجلی، گیس اور واٹر سپلائی کے لیے 3.5 فیصد کا ہدف مقررکرنے کی تجویز سامنے آئی ہے، جبکہ تعمیراتی شعبے کا ہدف 3.8 فیصد رکھنے، ہول سیل اینڈ ریٹیل ٹریڈ کا ہدف 3.9 فیصد، ٹرانسپورٹ، اسٹورریج اینڈ کمیونیکیشنز کا ہدف 3.4 فیصد رکھنے، انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن کا ہدف 5 فیصد مقرر کرنے اور فنانشل اینڈ انشورنس سرگرمیوں کا ہدف 5 فیصد رکھنے کی تجاویز ہیں۔
بہرحال حالیہ بجٹ میں تنخواہ دار طبقہ کو ریلیف دیا گیا ہے ،ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد جبکہ پنشن میں 7 فیصد اضافہ کیا گیا ہے اور ٹیکس میں کمی بھی کی گئی ہے۔
بہرحال پیٹرولیم لیوی میں 30 فیصد اضافے سے عوامی ٹرانسپورٹ اور اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھیں گی۔ حکومت نے جہاں ریلیف دینے کی کوشش کی ہے اس کا کسر مہنگائی پوری کرے گا، عام لوگوں کے مسائل جوں کے توں رہیں گے۔
بجٹ میں جی ایس ٹی میں 22 فیصد اضافہ دکھایا گیا ہے۔ عوام کا مسئلہ مہنگائی ،بیروزگاری اور بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی ہے۔ عوام کی امید وں اور توقعات کے برعکس بجٹ پیش کیا گیا۔
بجٹ میں زراعت اور آبی مسائل جیسے چیلنجز کو بھی زیادہ اہمیت نہیں دی گئی ہے جس پر کسانوں نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
دوسری جانب پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ کوشش تھی تنخواہ دار طبقے کو جتنا ریلیف دے سکیں اتنا دیا، پینشن اور تنخواہوں کو مہنگائی کے ساتھ لنک کرنا ہے، حقیقت یہ ہے کہ مالی گنجائش کے مطابق ہی ریلیف دے سکتے ہیں، خسارے کی وجہ سے ہرچیز قرضہ لے کرکررہے ہیں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ تنخواہ یا پینشن کی بات ہوتو کوئی بینچ مارک ہونا چاہیے، ساری دنیا میں مہنگائی کے ساتھ اضافے کے بینچ مارک کو رکھا جاتا ہے، مہنگائی کی شرح ابھی بھی ساڑھے سات فیصد ہے، ہماری ذمہ داری ہے کہ وفاقی اخراجات کو کم کریں۔
صحافیوں کی جانب سے وزراء اور پارلیمنٹیرینز کی تنخواہوں میں بے پناہ اضافے کے سوال پر وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ ضرور دیکھ لیں کہ وزراء اور پارلیمنٹیرینز کی سیلری کو کب ایڈجسٹ کیا گیا تھا، 2016 میں کابینہ کے وزراء کی تنخواہ بڑھائی گئی تھی، اگر ہر سال تنخواہ بڑھتی رہتی تو ایک دم بڑھنے والی بات نہ ہوتی۔
ایف بی آر کی جانب سے نئے مالی سال کے بجٹ کے حوالے سے پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس سے پہلے تکنیکی بریفنگ نہ دیے جانے پر صحافیوں نے احتجاجاً واک آئوٹ کیا۔
احتجاج کا مقصد ایف بی آر کی جانب سے بجٹ پر تکنیکی بریفنگ نہ دینا ہے جس سے یہ تاثر واضح ہوتا ہے کہ ٹیکسوں کے حوالے سے حکومت نے حقائق چھپانے کی کوشش کی ہے۔
بہرحال وفاقی اخراجات میں موجودہ حالات کے پیش نظر کمی کرنا ضروری ہے، پہلے عوام کو ریلیف دیا جائے پھر وفاقی نمائندگان کے اخراجات میں اضافہ کیا جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی سمیت دیگر مسائل کا سامنا عوام کو مستقبل میں درپیش ہوگاجن کا حل وفاقی حکومت نے ہی نکالنا ہے۔
وفاقی بجٹ 2025-26 پیش،عوام کو مستقبل میں مہنگائی سمیت دیگر چیلنجز کا سامنا!

وقتِ اشاعت : 1 day پہلے
Leave a Reply