|

وقتِ اشاعت :   October 30 – 2018

کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت آئین سے متصادم قانون نافذ کرکے اپنے کیخلاف خود عدم اعتماد کی تحریک لارہی ہے ۔معاونین خصوصی کی تقرری سے متعلق بلوچستان اسمبلی سے منظور ہونے والے مسودے کو عدالت میں چیلنج کرینگے ۔

وفاق میں صوبائی حکومت کی اتحادی جماعت کفایت شعاری اختیار کرکے گاڑیاں اور بھینس فروخت کررہی ہے۔ ایسے میں شدید مالی بحران کا شکار صوبائی حکومت 8 نئی بھینسیں خریدنے جارہی ہے جن میں ایک بلوچستان حکومت کو6 لاکھ روپے میں پڑے گی۔

گزشتہ روز بلوچستان اسمبلی کے اجلاس سے واک آؤٹ کے بعد اپوزیشن کے چیمبر میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے متحدہ اپوزیشن کے اراکین ملک سکندر ایڈووکیٹ، نصراللہ زیرے ، ملک نصیر احمد شاہوانی، ثناء بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان اسمبلی اجلاس میں تین مسودہ قانون پیش کئے گئے پہلا مسودہ گوادر میں اعلی علمی درسگارہ کا قیام اور دوسرا گورنمنٹ ایمپلائز بینوولینٹ فنڈ کا تھا جسے اپوزیشن نے حکومت کے ساتھ ملکر منظور دی ۔ 

ان کا کہنا تھا کہ اسمبلی کی کاررروائی چلانے کا ایک باقاعدہ طریقہ کار آئین میں طے ہے ۔ اسمبلی میں پیش کئے جانے والی بل پر پہلے غور کرکے بل کے اندر موجود خامیاں دور کی جاتی ہیں ۔ ایسا صوبے کی تاریخ میں کبھی ہوا ہوگا کہ اسمبلی کے قوانین سے ہٹ کر کوئی بل ایوان میں لایا گیا ہو ۔

ان کا کہنا تھا کہ اسمبلی اجلاس میں پیش کئے جانیوالے مسودوں میں کالا قانون بھی ایوان میں منظور کے لیے حکومت کی جانب سے پیش کیا گیا جس کے تحت معاون کی تعیناتیاں اور انکی مراعات سمیت 12 دفعات شامل تھے ۔

اپوزیشن اراکین کا کہنا تھا کہ حکومت نے انتخابات میں شکست خوردہ اپنے لوگوں کو نوازنے کیلئے آئین سے متصادم حربہ استعمال کیا تاکہ کالے قانون کو اسمبلی کے ذریعہ قانونی شکل دی جاسکے جس کی پوری دنیا کی پارلیمانی میں مثال نہیں ملتی ۔

رہنماؤں کا کہنا تھا کہ سرکاری محکموں میں ہزاروں کی تعداد میں تعینات بیوروکریٹس کسی بھی محکمہ میں وزیراعلیٰ کی معاونت کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک جانب حکومت کا وزیرخزانہ اسمبلی کے ایوان پر کھڑے ہوکر کہہ رہا ہے کہ بلوچستان حکومت کے پاس کل 80 کروڑ روپے ہیں اور صوبائی حکومت کو61 ارب روپے خسارے کا سامنا ہے ۔ حکومت مالی بحران کی آڑ لیکر پی ایس ڈپی میں شامل ترقیاتی منصوبوں کو ختم کررہی ہے ۔

اراکین اسمبلی کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت اپنے لوگوں کو نواز کر انہیں معاون خصوصی تعینات کرکے صوبائی بجٹ سے کروڑوں روپے ان پر خرچ کرنے جارہی ہے، سندھ ہائیکورٹ نے معاونین کی تعیناتیوں کا نوٹس لیکر حکومت کو معاونین تعینات نہ کرنے کا پابند کیا ہے ۔ 

اراکین کا کہنا تھا کہ حکومتی اراکین نے مل بیٹھ کر باقاعدہ ایک منصوبہ کے تحت معاونین کے نام تک فائنل کردئیے ہیں ۔ اپوزیشن اراکین کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت وفاق میں تحریک انصاف کی اتحادی ہے اور صوبائی حکومت میں تحریک انصاف کے اراکین بھی شامل ہیں ایسے میں جو ملک کا قرضہ ختم کرنے کیلئے وفاقی حکومتی نے کفایت شعاری اختیار کرکے لوگوں کے چائے بسکٹ پر پابندی لگاکر گاڑیاں اور بھینسیں فروخت کررہی ہے ۔ 

ایسے میں بلوچستان حکومت نئی بھینسیں خریدنے جارہی ہے اور یہ ایسی بھینیسں ہیں جن میں ہرایک بلوچستان حکومت کو 6 لاکھ روپے میں پڑے گی، ان کا کہنا تھا کہ حکومت واضح کرے کہ یہ لائق فائق لوگ کون ہیں جو بلوچستان کی بیوروکریسی میں موجود نہیں ہیں جن کے ذریعے حکومت صوبے سے بھوک افلاس، بے روزگاری ختم کر پائیں گے ۔ 

ان کا کہنا تھا کہ 8 معاونین کے تعیناتی سے صوبائی کابینہ 30 سے 32 اراکین پر مشتمل ہوجائے گی جو آئین اور اٹھارویں ترمیم کی روح کے برخلاف ہے ۔اپوزیشن اراکین کا کہنا تھا کہ صوبے کے معاملات کو عدالتوں میں نہیں لے جانا چاہتے ۔ 

تاہم حکومت نے آئین سے متصادم بل منطور کرکے ہمیں عدالتوں سمیت تحریک چلانے پر مجبور کیا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ عوام میں اپنا اعتماد کھو دینے والی حکومت کالے قوانین صوبے میں نافذ کرکے اپنے کیخلاف خود عدم اعتماد کی تحریک لارہی ہے ۔ اپوزیشن لیڈر کی نامزدگی سے متعلق اپوزیشن اراکین کا کہناتھا کہ جلد اپوزیشن جماعتیں قائدحزب اختلاف کیلئے کسی ایک نام پر متفق ہوجائیں گے ۔