|

وقتِ اشاعت :   November 14 – 2018

کوئٹہ: بلوچستان میں تعلیمی ایمر جنسی پر اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود بے بیشتر سرکاری سکولو ں میں پینے کا صاف پانی ،واش روم کی سہولت،چاردیواری ،بجلی ،گیس ،بلڈنگ ،سمیت دیگر بنیادی سے سہولیات سے محروم ہیں جس کے باعث طالب علموں کو مستقبل دھاو پر لگا گی ہے ۔

تفصیلات کے مطابق بلوچستان کے اکسوی صدی میں بھی بلوچستان کی تعلیمی نظام پسماندگی کا شکار ہیں ہر دور حکومت میں حکمرانوں نے تعلیمی ایمرجنسی کے نافذ کرنے دعوئے کئے مگر سرکاری سکولوں کی تقدیر نہ بد ل سکی سرکاری اعداد شمار کے مطابق بلوچستان میں ٹوٹل 13ہزار 6سو75سکول موجود ہیں جن میں سے 11ہزار7سو47سکولوں کی بلڈنگ موجود ہیں جبکہ 16سو 25سکول کاغذوں کی حدتک موجود ہیں ۔

5ہزار 3سو 64سکولوں میں صرف ایک استادطالب علموں کو زیور تعلیم سے آراستہ کررہے ہیں ،7ہزار 9سو11سکولوں میں واش سرے سے موجود ہی نہیں ہیں ،10ہزار55سکولوں میں پانی کی سہولت موجود نہیں ہیں ،5ہزار8سو40چاردیواری سے محروم ہیں جو سیکورٹی ایک بڑا رسک بھی ہیں ۔

8ہزار 9سو27سکولوں میں بجلی کی سہولت موجود نہیں جبکہ 11ہزار7سو47سکولوں میں سے صرف 342سکولوں میں گیس کی سہولت موجود ہیں دیہی علاقے تو ایک طرف صوبائی دارلحکومت کوئٹہ میں مجموعی طور پر1لاکھ 16ہزارطلباو طالبات کے لئے 6سو37سکول ہیں جن میں سے 146سکولز عمارت سے محروم ہیں عوامی حلقوں ہے ایوانوں کے نرم کرسیوں میں براجماں حکمران ہمیشہ دعوے کرتے ہیں کہ تعلیمی صورتحال میں بہتر ہورہی ہیں مگر صورتحال اس کے برعکس ہیں ۔

بلوچستان کے دور داز علاقوں کے تو چھوڑے صوبائی دارلحکومت کوئٹہ میں ایسے سکولز نظر آئیں گے جو بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں حکومت ہر سال تعلیم کے نام پر کرڑوں روپے کا بجٹ مختص کرتی ہیں مگر یہ بجٹ کرپشن کے نظر ہو جاتا ہیں جس کی ایک وجہ بلوچستان کھوسٹ اساتذہ کی کثیرتعداد ہیں جو گھروں میں بیٹھے تنخواہیں وصول کررہے ہیں حکومت عوام سے کئے گئے وعدے پورے کرئے تاکہ مستقبل کے معمار تعلیم جیسی بنیادی ضرورت سے محروم نہ رہے جائے ۔