ورلڈ بینک کی اسٹیٹ آف واٹر سپلائی، سینیٹیشن اینڈ پاورٹی ان پاکستان کے نام سے جاری رپورٹ میں بتایا گیا کہ بلوچستان میں غربت کی شرح سب سے زیادہ ہے جس میں 62 فیصد دیہی آبادی غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ پاکستان کے دیہی علاقے شہری علاقوں کے مقابلے میں غریب تر اور تقریباً تمام سہولیات سے محروم ہیں۔
دوسری جانب گزشتہ سال کی ایک حکومتی معاشی سروے کے مطابق بلوچستان کی کل آبادی کے 71فیصد افراد غریبی میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ اس سے قبل ماہرین معاشیات کا اندازہ تھا کہ غربت کی شرح 80 فیصد ہے مگرگزشتہ حکومتی سروے کے مطابق اس بات کی تصدیق ہوگئی تھی کہ یہ شرح 71فیصد تک ہے۔
معاشی منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے آج دن تک بلوچستان میں غربت کی شرح میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جس کی کمی کے امکانات دور دور تک نظر نہیں آتے اور نہ ہی اس حوالے سے بلوچستان میں کوئی قابل ذکرمیگا پروجیکٹ یا معاشی منصوبہ زیر تکمیل ہے جس سے یہ امید لگائی جائے کہ غربت کی سطح کسی حد تک کم ہو سکتی ہے۔
بلوچستان کی ترقی کے لئے 76ارب روپے صرف اور صرف گٹر اسکیموں کے لئے رکھے جاتے ہیں معاشی ترقی کے لئے نہیں کہ بلوچستان میں زرعی ‘صنعتی، سمندری پیداوار میں اضافہ کیاجائے۔گزشتہ حکومتی پالیسی کے دوران یہ دیکھنے کو ملاکہ تمام فنڈز اجتماعی منصوبوں پر نہیں بلکہ وزراء اور اراکین اسمبلی اپنی ذاتی اسکیموں پر خرچ کرتے ہیں۔ 1985ء لے کر تاحال یہ فنڈ اسی طرح خرد برد ہوتا رہا ہے ۔
اگر یہ فنڈبلوچستان کی زرعی ‘ صنعتی ترقی کے لئے استعمال ہوتا تو غربت کی شرح بیس فیصد سے بھی کم ہوتی۔ بلوچستان میں گلہ بانی ‘ ماہی گیری ‘ زراعت اور معدنیات کے شعبے اہم ہیں ان کے لیے ایک بھی معاشی منصوبہ نہیں بنایاگیا، چاروں شعبوں سے 80 فیصد آبادی اپنا روزگار حاصل کررہی ہے۔
بدقسمتی سے گزشتہ صوبائی حکومتیں صرف ملازمین میں تنخواہیں بانٹتی رہیں ۔ ایک دہائی قبل یورپی یونین کی جانب سے گوادر کے قریب جہاز سازی کا بڑا کارخانہ لگانے کی تجویز دی گئی تھی جو گزشتہ دس سالوں سے سرد خانے میں پڑی ہوئی ہے۔
اس منصوبہ پر ساری سرمایہ کاری یورپی یونین کرے گی لیکن پھر بھی اس منصوبہ میں کسی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ گزشتہ حکومت کے دوران غریبی کم کرنے کی کوئی اسکیم نہیں بنائی گئی جس سے غربت کے خاتمے کیلئے گزشتہ حکومتی کی دلچسپی ظاہر ہوتی ہے ۔
اس بات سے سب ہی اتفاق کرتے ہیں کہ موٹر وے، میٹرو ٹرین اور میٹرو بس سے غریبی دور نہیں ہوگی، دور دراز علاقوں میں زبردست سرمایہ کاری سے غربت میں کمی آئے گی۔غربت کے خاتمے کیلئے جب تک حکمران، افسران پسماندہ علاقوں کا دورہ نہیں کرینگے ان کوکیسے علم ہوگا کہ وہاں کے مقامی مسائل کیا ہیں اور ان کا معاشی حل کیا ہے ۔
وفاقی ترقیاتی بجٹ میں بلوچستان کے لئے 40 ارب روپے رکھے جاتے ہیں اور سال کے آخر تک اس غریب صوبے کی 50 فیصد رقم کاٹ لی جاتی ہے اور صرف 20 ارب روپے دئیے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس پنجاب کا صوبائی ترقیاتی پروگرام جو یقیناًوسطی پنجاب اور لاہور کے لئے مختص ہے وہ 500 ارب روپے کا ہوتا ہے اور اتنا ہی رقم وفاق خرچ کرتا ہے اور بیرونی ممالک سے امداد کی مد میں 200 ارب روپے خرچ ہوتے ہیں۔
اس طرح وسطی پنجاب کے لئے 1200 ارب روپے صرف ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہوتے ہیں۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ بلوچستان اور دوسرے کم ترقی یافتہ علاقوں کی ترقی کے لئے زیادہ سے زیادہ رقم خرچ کی جائے۔
موجودہ حکومت بہترین معاشی پالیسیاں بنانے کیلئے ماہرین کی مدد لے تاکہ غربت کی شرح میں کمی کی جاسکے اور بجٹ میں معاشی ترقی وفروغ کیلئے زیادہ رقم مختص کرتے ہوئے ان منصوبوں پر عملدرآمد بھی کرائے تاکہ حوصلہ افزاء نتائج حاصل کیے جاسکیں۔