|

وقتِ اشاعت :   November 26 – 2018

موجودہ معاشی صورت حال میں یہ لازمی ہوگیا ہے کہ بلوچستان اپنا بنک قائم کرے جو خیبر بنک اور پنجاب بنک کے طرز پر ہو۔ یہ مکمل طورپر تجارتی بنک ہو اور اس کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومت کو بھی ضروری بنکاری کی سہولیات فراہم کرے۔ 

اس سے قبل نیشنل بنک بعض سہولیات فراہم کرتا تھا لیکن موجودہ حالات میں نیشنل بنک حکومت بلوچستان اور بلوچستان کے عوام کی توقعات پر پورا نہیں اتررہا۔ 1990ء کی دہائی میں بلوچستان بنک کے قیام کی تجویز آئی تو اس کی شدید مخالفت اس لئے کی گئی تھی کیونکہ طاقتور جنگی سرداروں کی موجودگی میں بلوچستان بینک کے ذریعے بنکاری کی سہولیات عوام اور حکومت کو فراہم کرنا ممکن نہیں تھا۔

اسی بناء پر اس کی سخت مخالفت کی گئی تھی جس کی وجہ سے بلوچستان بنک قائم نہ ہو سکا اور یہ خدشات درست ثابت ہوئے۔ لیکن گزشتہ بیس سالوں میں حالات یکسر تبدیل ہوچکے ہیں اب بلوچستان میں کوئی شخص دھونس دھمکی سے بنک سے قرضہ حاصل نہیں کر سکتا۔

دو دہائی قبل کا ایک واقعہ ہے کہ ایک بینک منیجر بنک چھوڑ کر علاقے سے فرار ہوگیا تھا اور بنک کے صوبائی ہیڈ کوارٹر کو رپورٹ کی کہ ایک طاقتور قبائلی سردار نے کروڑوں روپے کا قرض طلب کیا تھا، بنک منیجر کے لیے انکار کرنا مشکل تھا اس لیے مجبوراً وہ چارج چھوڑ کر چلا گیا۔ اب وہ صورت حال نہیں ہے اور نہ ہی کوئی شخص اتنا طاقتور نظر آتا ہے کہ وہ دھونس دھمکی سے بنک سے قرضہ حاصل کرے اور اس کو ہڑپ کر لے۔ 

البتہ بلوچستان معاشی ترقی کے ایک ایسے دور میں جلد داخل ہونے والا ہے جہاں پر نیشنل بنک جو ایک وفاقی تجارتی بنک ہے وہ بلوچستان کی ضروریات کو پوری نہیں کرسکے گا۔ آئندہ چند سالوں میں بلوچستان کی حکومت خود معاشی پروجیکٹ شروع کر سکتی ہے جس کیلئے سرمایہ کی ضرورت ہوگی جو بلوچستان بنک اس کو زیادہ چابکدستی کے ساتھ فراہم کر سکتا ہے۔ 

اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان بنک صوبے میں ہزاروں اسامیاں پیدا کرے گی جس سے مقامی معیشت کو زبردست اندازمیں ترقی ملے گا کیونکہ مقامی لوگ زیادہ آسانی سے بلوچستان بینک سے قرضہ حاصل کرسکیں گے اور بنک مقامی تاجروں اور سرمایہ کاروں کو معاشی معلومات اور امداد بھی فراہم کرے گا تاکہ وہ مقامی طورپر چھوٹی چھوٹی صنعتیں قائم کر سکیں۔ بلوچستان بنک زراعت کی ترقی میں بھی زبردست طریقے سے معاونت کرے گا۔ بیج اور کھاد کے قرضے کے علاوہ کاشتکاروں کو مشورے دے گا۔ 

سب سے بڑا فائدہ مالداروں اور ماہی گیروں کو ہوگا کیونکہ یہ دونوں شعبے ہمیشہ نظر انداز کیے گئے۔ گلہ بانی کو قرضہ فراہم کرنے کی صورت میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کو روزگار ملنے کے مواقع حاصل ہوں گے ،ہر گھر میں گائے پالی جا سکتی ہے، ہر گھرمیں بھیڑ بکریوں کا ریوڑ بن سکتا ہے۔ 

اسی طرح سے ماہی گیری کو چھوٹے اور بڑے پیمانے پر ترقی دی جا سکتی ہے۔ بنک خود مکران کے ساحل اور دیگر مناسب مقامات پر سرد خانے قائم کر سکتا ہے جہاں پر مچھلی کو محفوظ کیا جائے گا جس سے اس کی قدر اور قیمت میں کمی نہیں ہوگی، اس سے وہ ملک بھر میں پروٹین کی ضروریات بھی پوری کرے گااور ملک کے لئے زرمبادلہ بھی کمائے گا۔بہر حال گلہ بانی ،ماہی گیری اور مال داری کے شعبوں سے اربوں ڈالر کمایا جا سکتا ہے۔

بلوچستان بنک صوبے کے لئے گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔گزشتہ روز صوبائی کابینہ نے محکمہ خزانہ کی جانب سے بینک آف بلوچستان کے قیام کے لیے پیش کئے گئے ایجنڈے سے اتفاق کرتے ہوئے بینک کے قیام کی فزیبلیٹی رپورٹ تیارکرنے کی اصولی طور پر منظوی دے دی جبکہ بلوچستان ریونیو اتھارٹی اور بلوچستان پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی کی خودمختار حیثیت برقرار رکھتے ہوئے ان اداروں کا انتظامی کنٹرول محکمہ خزانہ کو دینے کے لئے رولز آف بزنس میں تبدیلی کی منظوری بھی دی ۔ 

یہ بلوچستان حکومت کا انقلابی اور تاریخی فیصلہ ہے جس سے آنے والے وقت میں بلوچستان کو بہت مالی فائدہ پہنچے گا ، اب مزید اس میں دیر نہ کی جائے بلکہ اس پر جنگی بنیادوں پر کام کا آغاز کیا جائے تاکہ اس سے صوبہ اور اس کے عوام کو فائدہ پہنچ سکے۔