’’قانون کی لاقانونیت‘‘ ایک ایسی اصطلاح ہے جو سماعتوں کو نامانوس لگے گی ۔ اس مملکت خداداد میں ہماری سماعتیں ہمیشہ سے کچھ ایسی اصطلاحات سے مانوس رہی ہیں کہ جن کی شیرینی کانوں میں رس گھولتی ہے۔ مثلاً ’’قانون کی سربلندی‘‘اور ’’قانون کی حکمرانی‘‘ جیسے خوشنما الفاظ حکمرانوں سے لے کر منصفوں اور وکلاء کے لبوں سے پھسلتے نظر آتے ہیں۔
ان دلفریب الفاظ کے باوجود اس ملک کی عدالتوں میں قانون کی سربلندی اور انصاف کی فراہمی کتنی ناپید ہے اس کا اندازہ عدالتوں میں زیر سماعت لاکھوں مقدمات سے لگایا جا سکتا ہے جن پر وقت کی گرد چڑھ گئی لیکن انصاف کی فراہمی کا چشمہ آج تک نہیں پھوٹ سکا۔ ہمارا عدالتی نظام خاص کر ماتحت عدلیہ میں انصاف کا حصول کتنا کٹھن مرحلہ ہے اور عدالتی نظام سے وابستہ افراد ہی انصاف کی فراہمی کی راہ میں کیسے روڑے اٹکاتے ہیں یہی وہ ’’قانون کی لاقانونیت‘‘ ہے ۔
جسے صفی الدین اعوان ایڈوکیٹ نے اپنی تصنیف کا نام دیا ہے ۔ کراچی میں ہائی کورٹ کے وکیل صفی الدین اعوان ایڈوکیٹ کی کتاب ’’قانون کی لاقانونیت: سقراط سے امام حسینؓ تک‘‘ اپنے اندر ایسے چشم کشا حقائق سموئے ہوئے ہے کہ جن سے آگاہی حاصل ہونے کے بعد پتا چلتا ہے کہ آخر اس ملک میں انصاف کی فراہمی کیونکر ایک کمیاب جنس بن چکی ہے۔
قانون کے پیشے سے وابستہ ہونے کی وجہ سے مصنف عدالتی نظام او ر اس سے وابستہ افراد اور ان کے حرکات سے بخوبی آگاہ ہیں اس لیے ان افراد کو فرضی کرداروں میں کمال خوبصورتی سے ڈھال کر انصاف کی فراہمی کے نظام میں پائی جانے والی قباحتوں کو موضوع سخن بنایا ہے۔
ملک کے عدالتی نظام پر بہت ہی کم تصانیف لکھیں گئیں اور جو کچھ لکھا گیا وہ اکثراوقات جج صاحبان کی یاداشتوں پر ہی مشتمل ہے ۔ عدالتی نظام میں موجود نقائص اور خامیاں کس طرح انصاف کی فراہمی پر سمجھوتہ یا اس کے حصول میں رکاوٹ بنتی ہیں ان کا اس تصنیف میں بھرپور احاطہ کیا گیا ہے۔
مصنف نے جہاں عدالتی نظام میں نقائص پر بھرپور چوٹ کی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ ان ججوں کی تعریف و توصیف میں بخل سے کام نہیں لیا جنہوں نے اپنے فرائض کی ادائیگی پوری تندہی اور دیانتداری سے کی۔ اس تصنیف میں جس طرح عدالتی اہلکاروں کو فرضی کرداروں میں ڈھا لا گیا اس کا نمونہ ملاحظہ ہو۔ مصنف لکھتے ہیں،’’عدلیہ میں سب سے اہم کردار پیش کار ہے۔ یہ اپنی دنیا کے بے تاج بادشاہ ہیں۔
یہ چورن پور کی ایک عدالت میں پیش کار کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ یہ ماتحت عدلیہ کے سب کچھ ہیں۔عدلیہ کے اصل مالک یہی صاحب ہیں۔یہ عدالت میں ایک گروپ جسے ’’پارٹی کہتے ہیں اس کی سربراہی کرتے ہیں۔اس گروپ میں عدالت کا چپڑاسی، پٹے والا ، کلرک، کورٹ محرر شامل ہوتے ہیں‘‘۔
اسی طرح کورٹ محرر کے کردار کو بھی موضوع سخن بنایا گیا ہے کہ کس طرح اس کردار کو ’’کورٹ کی دائی ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کردار کی طاقت و خود سری کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں،’’یہ عدالتی نظام میں بظاہر ایک چھوٹا سا پرزہ نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں یہ سب سے اہم ترین مہرہ بن چکا ہے۔
اس کی طاقت بعض معاملات میں تو پولیس کے سربراہ سے بھی زیادہ نظر آتی ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ وہ پولیس کی وردی میں عدالت میں پیش ہو ۔ عدالت میں پیشی پر پولیس کے سربراہ اور اعلیٰ افسر تک وردی میں آتے ہیں لیکن عدالت آج تک اس کورٹ محرر کو پولیس کی وردی نہیں پہنا سکی‘‘۔ ۔ اس کتاب میں ایک کما ل کا باب ’’زندہ لاش ‘‘ کے نام سے مصنف نے لکھا ہے ۔
مصنف کے بقول جب سیشن ججوں کو ہائی کورٹ میں ایڈیشنل جج لگایا جاتا ہے اور وہ کچھ عرصہ بعد دوبارہ سیشن جج کے عہدے پر واپس آجاتے ہیں تو وہ پھر کسی زندہ لاش سے کم نہیں ہوتے۔
وہ بار بار اس شیروانی کو دیکھتے رہتے ہیں جسے پہن کر وہ کچھ عرصہ ہائی کورٹ میں ایڈیشنل جج کے طور پر فرائض انجام دیتے رہے ہیں لیکن خرابی قسمت کی وجہ سے ہائی کورٹ میں مستقل جج کے طور پر کنفرم نہیں ہو سکے اور دوبارہ سیشن جج کے عہدے پر واپس آنے کے بعد ان کا دل ہائی کورٹ میں ہی اٹکا رہتا ہے ۔
ہائی کورٹ کے جج کے جاہ و جلال اور رعب و دبدبے کا مزا چکھنے کے بعد جب اسے واپس سیشن کورٹ بھیجا جاتا ہے تو یہ صدمہ اسے نیم پاگل کر دیتا ہے اور ہائی کورٹ سے واپسی پر سیشن جج ایک زندہ لاش کی طرح واپس آتا ہے۔ اسی طرح ایک جج سے انٹرویو بھی کمال مہارت سے احاطہ تحریر میں لایا گیا ہے۔
اس تصنیف میں سب سے خاصے کی شے ایک جج کے بیٹے کی بطور وکیل پریکٹس کی شروعات ہیں۔ فرضی کرداروں کے سانچے میں ڈھال کر مصنف نے اس حقیقت سے بھی پردہ اٹھایا کہ ایک جج کے فرزند کو جو وکالت میں قدم رکھتا ہے اس کے لیے حالات کیسے سازگار بنائے جاتے ہیں۔ عدالتی اہلکاروں سے لے کر مختلف لاء فرم کیسے اس فرزند کو ہاتھوں ہاتھ لیتی ہیں اور کچھ ہی عرصے میں صاحبزادے کیسے وکالت کے میدان میں کشتوں کے پشتے لگا دیتے ہیں۔
وکالت کے پیشے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ دنیا کا معتبر اور مہنگا ترین پروفیشن ہے ، تاہم پاکستان میں اس پیشے سے وابستہ افراد نے خود اسے بے توقیر کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ۔انصاف کی فراہمی کی کمیابی پر شکوہ کناں یہ تصنیف کہتی ہے کہ جن ممالک میں عدالتیں انصاف فراہم کرتی ہیں ایسے معاشروں میں جب شہری عدالتوں کے سامنے سے گزرتے ہیں تو عدالت کی عمارت کا اس طرح ادب کرتے ہیں جیسا کہ کسی مذہبی عبادت گاہ کا کیا جاتا ہے ۔
عدالت میں اسی طرح خاموشی ہوتی ہے اور شہری بالکل اس طرح ادب سے سرگوشیوں اور دھیمے لہجے میں بات کرتے ہیں جیسے کہ وہ مذہبی عبادت گاہو ں میں کرتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت بھی ہے کہ کہ کمرہ عدالت اور انصاف کی فراہمی کے لیے جو عمارتیں بنائی جاتی ہیں ان کا مقام کسی طرح بھی مذہبی عبادت گاہ سے کم نہیں۔