|

وقتِ اشاعت :   November 28 – 2018

پاکستان میں گزشتہ حکومت کے دوران اٹھنے والی تبدیلی کی آوازکے خالق جماعت تحریک انصاف کی حکومت کو تین ماہ مکمل ہو چکے ہیں ، اس عرصے میں کئی اتارچڑھاؤآئے ،ایسے اعلانات اور بیانات سامنے آئے جو کہ نہ صرف متنازع رہے۔

بلکہ ان پر حکومت کو موقف تبدیل بھی کرنا پڑابلکہ حکومت کی جانب سے پالیسیوں پر مستقل مزاجی نہ ہونے کی وجہ سے جب تنقید بڑھی تو وزیراعظم عمران خان کو یہاں تک کہنا پڑا کہ حالات کے مطابق یوٹرن نہ لینے والا کبھی کامیاب لیڈر نہیں ہوتا۔

اپوزیشن جماعتوں کیلئے عوام سے وعدے کرنا اور ملک کے بارے میں ایک تابناک اوربہترمستقبل کاتصورپیش کرنا ہمیشہ سے ایک آسان نسخہ رہا ہے جس میں معاشی خود انحصاری کا دعوی ٰہمیشہ سرفہرست رہتا ہے۔

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اقتدار میں آنے سے پہلے ماضی کی حکومتوں کا عالمی مالیاتی اداروں بالخصوص آئی ایم ایف کے پاس جانے کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور جوش خطابت میں انہوں نے یہاں تک کہہ ڈالا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے وہ خودکشی کرنے کو ترجیح دیں گے۔

جبکہ ان کے وزیر خزانہ اسد عمر نے آئی ایم ایف کی سربراہ کریسٹین لیگارڈ کو قرضے کے لیے درخواست دی ۔ شاید حکومت میں آنے سے ترجیحات بدل جاتی ہیں چاہے اس کو مجبوری کہا جائے یا کچھ اور ایسا ہی تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ ہوا اور آہستہ آہستہ ملک کی پتلی معاشی صورتحال کے بارے میں میڈیا کو بتایا جانے لگا۔

اس پر وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت کو جہاں حزب اختلاف کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا وہیں سوشل میڈیا پر ان کے آئی ایم ایف مخالف کلپس کو چلا کر ان کو وعدہ خلافی کا احساس دلایا گیا،شاید اسی وجہ سے وزیراعظم کو کہنا پڑا کہ حکومت میںآتے ہی قرضوں کی قسطیں ادا کرنے کا بوجھ سر پر آن پڑا اور اگر فوری طور پر قرضہ نہ لیتے تو ملک ڈیفالٹ کر جاتا جس سے مزیدمشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

اقتدار میں آنے سے قبل عمران خان کی جانب سے سی پیک منصوبے کے بارے میں ملے جلے اشارے ملے اور جہاں ماضی کی حکومت اس کو گیم چینجر کا نام دے رہی تھی وہیں تحریک انصاف کی جانب سے اس منصوبے کے بارے میں کوئی واضح پالیسی نہیں تھی۔حقیقت یہی ہے کہ ماضی کی حکومت کے پاس بھی واضح پالیسی نہیں تھی اگر ہوتی تو نئی حکومت کو مشکلات درپیش نہ ہوتیں۔

تاہم تحریک انصاف کی حکومت میں آنے کے بعد سی پیک کے بارے میں پالیسی کچھ واضح ہوئی جس میں حکومتی وزرا ء کی جانب سے ایسے بیانات سامنے آئے جس میں عندیہ دیا گیا کہ حکومت سی پیک معاہدے کے تحت شروع کیے جانے والے منصوبوں کا ازسرنو جائزہ لے گی۔تاہم اس معاملے نے متنازعہ رخ اس وقت اختیار کیا جب ستمبر کے اوائل میں ابھی چینی وزیر پاکستان کے دورے پر ہی تھے۔

کہ وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے کامرس، ٹیکسٹائل، انڈسٹری اینڈ سرمایہ کاری رزاق داؤد نے ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کو انٹرویو میں منصوبے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’ پچھلی حکومت نے سی پیک پر چین سے بات چیت میں بری کارکردگی دکھائی۔ انھوں نے اپنا ہوم ورک یا کام ٹھیک طریقے سے نہیں کیاتھا ۔

اس بیان کے بعد ایک ہنگامہ برپا ہوا اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ، اس کے بعد مذکورہ وزیر کو وضاحت دینا پڑی ۔

بہرحال یہ مختصر جاۂ تھا مگریہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنے کے راستے کھل جاتے ہیں ، نئی حکومت کے سودنوں کے دوران کئی اتارچڑھاؤ آئے۔بہرحال امید نہیں چھوڑنی چاہئے کہ آنے والے وقت میں بہتری کے امکانات بھی پیدا ہوسکتے ہیں جس سے مشکلات میں کمی آئے گی