چین پاک اکنامک کوریڈور منصوبہ کے متعلق اب تک تو بلوچستان کے حوالے سے بعض چیزیں واضح نہیں ہیں کہ اس منصوبہ میں عوام کو برائے راست کس طرح فائدہ پہنچایاجاسکتا ہے اور یہاں سرمایہ کاری کیلئے کس طرح کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔
گزشتہ حکومت کے دوران جس طرح سے باتیں سامنے آئیں تو ایسا محسوس ہوا کہ بلوچستان میں چند دنوں کے اندر سب کچھ بدل جائے گا اور بڑے بڑے بجلی گھر، صنعتی زون، ریلوے لائن، سڑکوں کا جال بچھاکر چند ہی سالوں میں بہت بڑی معاشی تبدیلی رونما ہوگی۔
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے گزشتہ حکومت کے ان تمام جھوٹے دعوؤں کی قلعی کھول دی اور واضح طور پر کہہ دیا کہ سی پیک سے بلوچستان کو برائے راست کوئی پیسہ نہیں مل رہا جس طرح ماضی کی حکومت نے عوام کو خوش فہمی میں مبتلا کیا تھا اور لوگ بھی اسی انتظار میں تھے کہ بس سی پیک منصوبہ کے آغاز سے ہی یہاں سب کچھ بدل جائے گا۔ جام کمال خان نے یہ بات سینئر صحافیوں سے اس وقت کہی جب وہ چین کے دورہ کے بعد کوئٹہ پہنچے تھے ۔
یقیناًوزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے جس طرح سے سی پیک کا خلاصہ کیا اور بلوچستان کی اس منصوبے میں شراکت داری سے متعلق سب کچھ واضح کردیا کہ کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ۔ جام کمال خان کے اس بات سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ ہمارے پاس صرف زمین اور وسائل ہیں جس کیلئے منصوبہ بندی کرتے ہوئے ہم سی پیک سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں خاص کر لیز پر زمین دینے اور وسائل کو کس طرح استعمال میں لانا ہے ۔
گزشتہ روز وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کو اعلیٰ سطحی اجلاس میں سی پیک میں شامل بلوچستان کے منصوبوں کی پیشرفت پر بریفنگ دی گئی۔ اجلاس میں سی پیک میں شامل بلوچستان کے منصوبوں پر پیشرفت کی سست روی پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
اجلاس کو آگاہ کیا گیا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبوں میں بلوچستا ن کا نو فیصد حصہ ہے جس میں گوادر بندرگاہ ، توانائی، ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر اور صنعتی شعبہ سے متعلق منصوبے شامل ہیں۔ ان میں سے بندرگاہ سے منسلک منصوبے،گوادر نیو ایئرپورٹ، پاک چائنہ فرینڈ شپ ہسپتال گوادر اور گوادر ماسٹر پلان کے منصوبے ،چینی گرانٹ سے بنائے جارہے ہیں جبکہ توانائی کے شعبہ میں حب میں 1320میگاواٹ کول پاور پلانٹ، براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کا منصوبہ ہے۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر کے سی پیک میں شامل مغربی روٹ کے چار منصوبے جن میں ڈی آئی خان ژوب سیکشن، کوئٹہ ژوب سیکشن، کوئٹہ سوراب سیکشن جنہیں 2020ء میں مکمل ہونا چاہئے تھا تاحال نامکمل ہیں جبکہ بسیمہ خضدار سیکشن کی کاغذی کاروائی بھی مکمل نہیں ہوسکی ہے اور اب تک صرف گوادر سوراب سیکشن کو مکمل کیا گیا ہے۔
اجلاس کو کوئٹہ ماس ٹرانزٹ اور پٹ فیڈر سے کوئٹہ کو پانی کی فراہمی کے مجوزہ منصوبوں کے حوالے سے آگاہ کیا گیا کہ منصوبوں کی فزیبلیٹی رپورٹ تیار کی گئی ہے جس کے لئے چین قرض فراہم کرے گایہ دونوں منصو بے سی پیک کے فریم ورک میں شامل ہیں۔
اجلا س کو بتایا گیا کہ بوستان سپیشل اکنامک زون منصوبہ بھی سی پیک کا حصہ ہے اور سی پیک ون ونڈو سٹاپ شاپ کا قیام جس میں سرمایہ کاروں کو تمام سہولیات ایک چھت کے نیچے دستیاب ہوسکیں گی کا منصوبہ سی پیک میں شامل ہے۔
اجلاس کو گوادر پورٹ اتھارٹی کے منصوبوں جن میں ایسٹ بے ایکسپریس وے، پاک چائنہ ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ، بریک واٹر کی تعمیر اور پورٹ کی ڈریجنگ شامل ہیں کے بارے میں بھی بریفنگ دی گئی اورآئندہ ماہ منعقد ہونے والے جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی کے آٹھویں اجلاس میں شامل ایجنڈا کے بارے میں بھی آگاہ کیا گیا اور بتایا گیا کہ جے سی سی کے آئندہ اجلاس میں نیوگوادر ایئرپورٹ کا سنگ بنیاد رکھنے کی تاریخ کا تعین کرنے کے علاوہ پاک چائنہ فرینڈ شپ ہسپتال، ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ اور گوادر سمارٹ انوائرمنٹ اینڈ سینی ٹیشن پروجیکٹ کی دستاویزات پر دستخط کئے جائیں گے۔
اجلاس میں سی پیک میں شامل بلوچستان کے منصوبوں کی پیشرفت کو بہتر بنانے اور اس حوالے سے متعلقہ صوبائی محکموں کے درمیان روابط کے قیام سے متعلق مختلف تجاویز پر غور کرتے ہوئے بعض اہم فیصلے کئے گئے اور اس بات سے بھی اتفاق کیا گیا کہ پٹ فیڈر سے کوئٹہ کو پانی کی فراہمی کا منصوبہ قابل عمل نہیں جبکہ کوئٹہ ماس ٹرانزٹ منصوبے کے متبادل کے طور پردیگر منصوبوں جن سے ٹریفک کے دباؤ میں کمی لاکر عوام کو ٹرانسپورٹ کی سستی اور معیاری سہولت فراہم ہوسکے کا، بھی جائزہ لیا جائے گا۔
اس موقع پر وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہناتھاکہ سی پیک میں بلوچستان کے لئے کیا کیا موجود ہے، یہ ابھی تک ایک سوالیہ نشان ہے اگر ماضی میں سی پیک کو سنجیدگی سے لیا جاتا توبلوچستان اس عظیم منصوبے سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتا تھا اور ابھی بھی اگر ہم نے سنجیدگی کا مظاہر ہ نہ کیا تو وقت ہاتھ سے نکل جائے گا۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ صوبے کو قدرتی وسائل کی صورت میں حاصل مواقعوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لئے سی پیک سے ہٹ کر بھی جامع منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے، خاص طور سے محکمہ منصوبہ بندی وترقیات میں منصوبہ بندی اور ترقیات کے شعبوں کے ساتھ ایک ایسے شعبہ کے قیام کا جائزہ لیا جائے جو صوبے کے تمام وسائل کی ترقی اور انہیں بروئے کار لانے کے لئے عملی اقدامات کو یقینی بناسکے۔
وزیراعلیٰ نے بوستان اسپیشل اکنامک زون کی جامع فزیبیلیٹی رپورٹ کو فوری مکمل کرنے اور سی پیک ون ونڈو شاپ کے قیام کے لئے سول سیکریٹریٹ میں اراضی کی فراہمی کا جائزہ لینے کی ہدایت کی۔ اجلاس میں بلوچستا ن میں سرمایہ کاری کے فروغ کے روڈ میپ جس میں مختلف ممالک میں روڈ شو کا انعقادبھی شامل ہے کا جائزہ بھی لیا گیا۔
وزیراعلیٰ نے ہدایت کی کہ روڈ شو کا انعقاد آئندہ سال فروری میں کیا جائے اور سرمایہ کاری کے فروغ کے حوالے سے کوئٹہ اور گوادر میں سیمینار منعقد کئے جائیں۔ موجودہ حکومت نے جس طرح حقیقت پسندانہ طریقہ سے تمام حقائق سامنے لائی اور منصوبوں کے متعلق گزشتہ حکومت کی کارکردگی اور عدم دلچسپی کو واضح کیا، امید ہے کہ اس کو دہرایا نہیں جائے گا بلکہ سی پیک سے بلوچستان کے عوام کی جو امیدیں وابستہ ہیں ان کو پورا کیاجائے گا۔
بلوچستان کی ترقی کی امیدیں سی پیک سے وابستہ ہیں اگر اس منصوبہ پر توجہ نہیں دی گئی اور بروقت خامیوں کو دور نہ کیا گیا تو یقیناًاس سے بڑا نقصان ہوگا اور حکومتی وعدوں سے عوام کا اعتماد اٹھ جائے گا۔ عوام کے اعتماد کو بحال کرنے کیلئے سی پیک سے جڑے منصوبوں پر تیزی سے کام کا آغاز کرتے ہوئے صوبہ میں ترقی اور خوشحالی کے نئے دور کا آغاز کیاجائے تاکہ یہاں موجوددیرینہ مسائل حل ہوسکیں۔