|

وقتِ اشاعت :   December 11 – 2018

 اسلام آباد: سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے العزیزیہ ریفرنس کی سماعت میں دلائل دیے کہ میاں شریف کے بے نامی دار طارق شفیع تھے۔

احتساب عدالت میں العزیزیہ ریفرنس کی سماعت ہوئی تو نواز شریف عدالت میں پیش ہوئے۔ ان کے وکیل خواجہ حارث نے حتمی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حسین نواز اپنے والد کے زیر کفالت نہیں تھے، بلکہ دادا میاں محمد شریف نے حسین نواز کو سرمایہ دیا تھا، وہ حسین، حسن اور اپنے دیگر پوتوں کو بھی رقم فراہم کرتے تھے۔ میاں شریف نے گلف اسٹیل ملز قائم کی تھی اور 75 فیصد شیئرز فروخت کردیے تھے، میاں شریف کے بے نامی دار طارق شفیع تھے، باقی 25 فیصد حصص طارق شفیع کے زریعے فروخت کیے گئے اور گلف اسٹیل کا نام بدل کر اہلی اسٹیل ملز رکھ دیا گیا، اس کاروبار میں نواز شریف نے کوئی حصہ نہیں لیا۔

خواجہ حارث نے کہا کہ گلف اسٹیل ملز، العزیزیہ اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ سے متعلق حسن اور حسین نواز کے بیانات نوازشریف کے خلاف استعمال نہیں کیے جاسکتے، بچوں نے جے آئی ٹی کو اپنے کاروبار سے متعلق بیانات دیے جس میں نواز شریف شریک نہ تھے، گلف اسٹیل کے قیام کے دوران نواز شریف صرف ایک یا دو بار متحدہ عرب امارات گئے۔ گلف اسٹیل، العزیزیہ اسٹیل اور ہل میٹل سے متعلق تمام معلومات حسن اور حسین نواز کی فراہم کردہ ہے، نواز شریف کا ان تمام کاروباری معاملات سے کوئی تعلق نہیں رہا۔

خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ اور قلمبند بیانات کو بطور ثبوت پیش نہیں کیا جاسکتا، حسین نواز 2001 میں 29 سال اور حسن نواز 25 سال کے تھے، دونوں کے نواز شریف کے زیر کفالت ہونے کا کوئی ثبوت نہیں دیا گیا، نواز شریف کے قوم اور قومی اسمبلی سے خطاب کا مقصد صرف خاندان سے متعلق وضاحت دینا تھا، حسن اور حسین کی طرف سے فراہم کردہ دستاویزات کی بنیاد پر خطاب اور تقریر کی گئی۔