|

وقتِ اشاعت :   December 13 – 2018

اسلام آباد: وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ ہم نے عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے شرائط کے انتظار سے پہلے ہی ملکی کرنسی کی قدر میں کمی، شرح سود اور قدرتی گیس کی قیمتوں میں اضافے جیسے اقدامات اس لیے کیے ہیں کہ ہمیں یہ ضروری لگ رہے تھے۔

اصلاحات کے معاملے پر آئی ایم ایف اور حکومت کے درمیان اختلافات ہیں لیکن بات چیت جاری ہے جس میں اس بات پر اختلاف رائے نہیں کہ کیا کرنے کی ضرورت ہے بلکہ اقدامات کی رفتار، ترتیب اور وسعت پر اختلاف ہے۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ ہم نے آئی ایم ایف کی پابندیوں اور شرائط کا انتظار نہیں کیا بلکہ معیشت کی بہتری کے لیے حکومت کے پہلے سو دن کے اندر خود ہی متعدد اقدامات کیے۔ہم نے حکومت کے پہلے سو دن کے اندر گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا، نئے ٹیکس لگائے، شرح سود میں اضافہ کیا اور ملکی کرنسی کی قدر میں کمی کی۔

اقتصادی اور مانیٹرنگ پالیسی اصلاحات کی صحیح سمت میں جا رہے ہیں جس کی ضرورت ہے اور ہمیں ضرورت نہیں کہ آئی ایم ایف اس کے بارے میں ہمیں ہدایات دے بلکہ ہم وہ کر رہے ہیں جو ہمارے خیال میں ہمیں کرنے کی ضرورت ہے۔

بی بی سی کے مطابق تاہم وزیر خزانہ نے تصدیق کی کہ اس وقت اصلاحات کے معاملے پر آئی ایم ایف اور حکومت کے درمیان اختلافات ہیں لیکن بات چیت جاری ہے جس میں اس بات پر اختلاف رائے نہیں کہ کیا کرنے کی ضرورت ہے بلکہ اقدامات کی رفتار، ترتیب اور وسعت پر اختلاف ہے۔

آئی ایم ایف سے حاصل ہونے والے قرضوں سے چین کے قرضوں کی ادائیگی کے بارے میں امریکی حکومت کے خدشات پر ایک سوال کے جواب میں وزیر خزانہ نے کہا کہ اس کا جواب بڑا سادہ ہے کہ ہمیں چینی قرضے کی فکر ہونی چاہیے لیکن امریکی وزیر خارجہ پومپیو امریکی وزیر خارجہ) کو چینی قرضے کے اپنے مسئلے پر فکرمند ہونے کی ضرورت ہے ۔

کیونکہ دنیا میں امریکہ چین کا سب سے بڑا مقروض ہے جو کہ 13 کھرب ڈالر ہے جبکہ پاکستان پر چینی قرضہ ملک کے مجموعی بیرونی قرضوں کا دس فیصد ہے۔انہوں نے اس کے ساتھ سوال کیا کہ ہم گزشتہ 30 برسوں میں آئی ایم ایف سے 12 مختلف پروگراموں میں گئے لیکن یہ سوال پہلے کیوں نہیں پوچھا گیا کہ کس ذرائع اور کس ملک نے پاکستان کو کتنا قرضہ دے رکھا ہے؟

اسد عمر نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد مغربی ممالک کی سعودی عرب سے دوری اور اس دوران پاکستان کی جانب سے سعودی عرب سے بیل آؤٹ پیکیج لیے جانے کے بارے میں سوال کے جواب میں کہا کہ ہو سکتا ہے کہ مغربی رہنماؤں کو خود سے شرمندگی محسوس ہو جو جمہوریت اور آزادی کی بات کرتے ہیں اور پھر انہی سعودی پیسوں کے لیے جاتے ہیں تاکہ اربوں ڈالر مالیت کے معاہدے کر سکیں۔ 

مغربی دنیا کے رہنما صدر ٹرمپ اٹھ کھڑے ہوئے اور کھلے عام کہا کہ وہ سعودی عرب سے بہت زیادہ بزنس لے رہے ہیں اور میرے لیے پریشانی نہیں کہ خاشقجی کے ساتھ کیا ہوا۔ 

پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں چینی منصوبوں کے بارے میں پائے جانے تحفظات اور وہاں شدت پسندی کے واقعات کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں اسد عمر نے کہا کہ یہ بلوچستان کے لوگوں کا غصہ نہیں بلکہ یہ سپانسر دہشت گردوں کی سرگرمیاں ہیں جو پاکستان کے باہر سے مالی وسائل اور تربیت حاصل کرتے ہیں۔

بلوچستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے اور اس کے ذریعے سی پیک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سنجیدہ کوششیں ہیں اور اس پر کوئی اختلاف رائے نہیں کہ اس کی سربراہی بھارت کر رہا ہے۔

ہم نے بھارت کا ایک سینئرآپریٹر کلبھوش یادو پکڑا ہے جس نے تفصیل بتائی ہے کہ کس طرح بھارت بلوچستان اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں مداخلت کر رہا ہے تو ہاں بلوچستان میں دہشتگرد مداخلت ہو رہی ہے اور جہاں تک بلوچستان کے لوگوں کی بات ہے تو انہیں نے اپنی مرضی سے حکومت کا انتخاب کر کے کیا ہے جو سی پیک کے ساتھ کھڑی ہے اور اپنے صوبوں میں سی پیک کی زیادہ سرگرمیاں دیکھنا چاہتے ہیں۔