نیورو سرجن ڈاکٹر ابراہیم خلیل کو 13 دسمبر کی رات ساڑھے گیارہ بجے کوئٹہ کے علاقے ماڈل ٹاؤن سے نامعلوم مسلح افراد نے اس وقت اغواء کیا جب وہ اپنے گھر جارہے تھے۔ 6 دن گزرنے کے باوجود انہیں بازیاب نہیں کرایاجاسکا اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی سراغ ملا ۔
یقیناًیہ انتہائی تشویشناک امر ہے کہ ایک انتہائی اہم شعبے سے وابستہ ایک بڑے سرجن کو اغواء کیا گیا جس کی ہر سطح پر نہ صرف مذمت کی جارہی ہے بلکہ ان کی بازیابی کیلئے ڈاکٹروں کے ساتھ تمام مکتبہ فکر کھڑے ہیں۔
حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ جلد نیورو سرجن ڈاکٹر ابراہیم خلیل کی بازیابی کے حوالے سے تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے سیکیورٹی اداروں سے روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ طلب کرے اور ڈاکٹرتنظیموں کو اب تک کی پیشرفت سے آگاہ کریں تاکہ ڈاکٹروں میں موجود بے چینی اورحکومتی سطح پر سرد مہری کے تاثر کو زائل کیا جاسکے کیونکہ شہریوں کے جان ومال کے تحفظ کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔
ڈاکٹر ابراہیم کے اغواء کے بعد وزیرداخلہ نے ہائی الرٹ جاری کیا تھا،ان سے متعلق اب تک کیا معلومات ملی ہیں اس حوالے سے یقیناًاحتیاط ضروری ہے تاکہ ان سماج دشمن عناصر تک پہنچاجاسکے۔
ماضی میں بھی ڈاکٹروں کے اغواء کے بہت سے کیسز رپورٹ ہوئے تھے جس کے بعد صورتحال انتہائی گھمبیر ہوگئی تھی بعض ڈاکٹروں نے عدم تحفظ کی وجہ سے صوبہ چھوڑ دیا تھاجس کا نقصان برائے راست بلوچستان کو ہی ہوا تھا کیونکہ صوبہ بہترین ڈاکٹروں سے محروم ہو گیا تھا۔ بلوچستان میں پہلے سے ہی سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی کمی ہے خاص کر قابل وہونہار ڈاکٹرتو ناپید ہیں،یہ نقصان صرف ڈاکٹربرادری کو نہیں بلکہ ہمارے پورے معاشرے کوہورہا ہے ۔
بلوچستان کے غریب عوام کے علاج ومعالجے کا دارومدار سرکاری ہسپتال پر ہیں کیونکہ پرائیوٹ ہسپتالوں میں علاج ان کے بس سے باہر ہے جبکہ دیگر صوبوں اورشہروں میں علاج کیلئے جانے کا وہ سوچ بھی نہیں سکتے ۔لہٰذا ہر طرف سے یہ صدائیں بلند ہورہی ہیں کہ ڈاکٹروں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے کیونکہ ان کا کردار معاشرے میں انتہائی اہم ہے۔
دوسری جانب ڈاکٹر تنظیموں کانیورو سرجن ڈاکٹر ابراہیم خلیل کے اغواء خلاف احتجاج ریکارڈ کرانا قانونی حق بنتا ہے مگر اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ سرکاری ہسپتالوں کے بائیکاٹ سے برائے راست نقصان غریب عوام کا ہورہا ہے جو علاج کی غرض سے سرکاری ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں، ہڑتال کے باعث انہیں شدید مشکلات کا سامنا کرناپڑرہا ہے،۔ڈاکٹر اپنے فرائض ، اپنے عہدے کی مان اور رتبے کو پہچانیں کہ وہ عام لوگوں کیلئے مسیحا کا درجہ رکھتے ہیں ۔
جب پڑھے لکھے اور باشعور طبقے کی جانب سے احتجاج کے حوالے سے اس طرح کی روش اپنائی جائے گی تو عوام میں ان کیلئے ہمدردی کاتاثر پیدا نہیں ہوگا،اورڈاکٹر تنظیموں کی جانب سے پرائیوٹ ہسپتالوں میں صرف دو گھنٹے کی ہڑتال اور سرکاری ہسپتالوں کا مکمل بائیکاٹ اچھا عمل نہیں ہے اس سے یہ منفی تاثر جائے گا کہ ڈاکٹر حضرات کو اپنی کمائی سے محبت ہے۔
سرکاری ہسپتال کی تنخواہ تو ویسے بھی ملے گی چاہے کام کریں یا نہ کریں لیکن پرائیویٹ ہسپتالوں میں کام کے بغیر پیسے نہیں ملتے۔ لہٰذا ڈاکٹر تنظیموں کے عہدیداران اپنے اس احتجاج پر نظر ثانی کریں غریب عوام کے پاس پرائیویٹ ہسپتالوں میں علاج کرانے کے اتنے وسائل نہیں ۔
امید ہے کہ ڈاکٹرتنظیمیں عوام کے مسائل کو سمجھتے ہوئے سرکاری ہسپتالوں کا بائیکاٹ ختم کرکے پُرامن اور قانونی طریقے سے اپنا احتجاج ریکارڈ کرائینگے ، اس طرح سب لوگ ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کرینگے۔