|

وقتِ اشاعت :   December 26 – 2018

اہل بلوچستان کو سی پیک کے حوالے سے وہ خواب دکھائے گئے کہ الامان الحفیظ، لیکن محترم جناب وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے گزشتہ سے پیوستہ روز بلوچستان اسمبلی کو اصل حقائق سے آگاہ کر تے ہوئے صاف صاف الفاظ میں بتا دیا کہ کہ سی پیک میں بلوچستان کا حصہ کچھ بھی نہیں۔اتنے بڑے منصوبے میں بلوچستان کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے اور آئندہ اس منصوبے سے جو بھی کمائی ہوگی ، بلوچستان کا حصہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر بھی نہیں۔

سی پیک میں بلوچستان کے صرف دو چھوٹے منصوبوں کا ذکر وزیر اعلیٰ جام کمال نے کیا کہ ژوب تا ڈیرہ غازی خان کی ایک سڑک اور ایک کول پاور پلانٹ شامل ہیں۔ یعنی نہ یہاں کوئی انڈسٹریل زون بننے جارہا ہے، نہ یہاں کوئی دوسری سہولیات مہیا کی جارہی ہیں جبکہ کول پاور پلانٹ سے جو آلودگی پھیلے گی وہ مقامی آبادی کو جھیلنا ہوگی۔حیرت ہوتی ہے سابق حکومت اور بلوچستان کے دو ہمدرد وزرائے اعلیٰ پر۔ 

ڈاکٹر مالک بلوچ اور نواب ثناء اللہ زہری نواز شریف کو بہت پیارے تھے لیکن نوازحکومت نے انہیں مکمل اندھیرے میں رکھا۔ ہمارے یہ دونوں وزرائے اعلیٰ نواز حکومت کے وزراء اور وفاقی نمائندوں کے ساتھ وفد میں چین کے دورے پرکیا کرنے جاتے تھے ، صرف فوٹو سیشن کرنے ،کیا انہیں اتنی بھی سمجھ نہیں تھی کہ ان کا چین جانا اور پھر معاہدوں پر دستخطوں سے بلوچ عوام کا کتنا نقصان ہوگا ۔

کیونکہ آپ تو اپنی دستخطوں کے ذریعے اپنے سارے وسائل مفت میں بیچ رہے ہواور فائدہ کچھ ملنا کچھ بھی نہیں۔اب جب کہ موجودہ وزیر اعلیٰ محترم جام کمال نے تفصیلات عام کردیں تو اہل بلوچستان کی رہی سہی امید بھی ختم ہوگئی کہ ہمیں کچھ بھی نہیں ملنا۔ کہاں گئے وہ بڑے بڑے دعوے کہ سی پیک گیم چینجر ثابت ہوگا ، یقیناًہوگا مگر شاید دوسرے صوبوں کے لیے ، بلوچستان یونہی پسماندہ رہے گا ۔

کیونکہ وفاق نے تو کچھ دینا نہیں جبکہ ہمارے نمائندوں میں اتنی جرات نہیں کہ اسلام آباد والوں کے آگے کچھ بول سکیں۔ کیاڈاکٹر مالک اور ثناء اللہ زہری ان معاہدوں کا مطالعہ کرنے کے لیے کوئی ماہرین نہیں رکھ سکتے تھے جو سی پیک کے حوالے سے کئے جارہے تھے تاکہ حقائق تو سامنے آتے اور پتہ چلتا کہ اس میں بلوچستان کا حصہ کتنا ہے۔ لیکن انہیں بلوچستان کے عوام کے مفادات سے زیادہ اپنی سی ایم شپ زیادہ عزیز تھی کہ ایسا نہ ہو وہ نواز شریف اور ان کے وزراء سے کچھ پوچھیں اور وہ ناراض ہوکر انہیں اس منصب سے نہ ہٹا دیں۔ 

ہم وزیر اعلیٰ بلوچستان جناب جام کمال سے بجا طور پریہ توقع رکھتے ہیں کہ جس طرح انہوں نے سی پیک منصوبوں سے متعلق آگاہی حاصل کرکے بغیر کسی لگی لپٹی کے حقائق سے عوام کو آگاہ کردیا اور کسی مصلحت کا شکار نہیں ہوئے ، آئندہ بھی اپنا یہ کردار ادا کرتے رہینگے اور ان نقصانات کی تلافی کی کوشش کرینگے جو سابق بلوچستان حکومت کی کوتاہی کی وجہ سے صوبے اور اس کے عوام کا ہوا ہے ، اورسی پیک منصوبہ میں صوبے کے لیے ایک بڑا حصہ حاصل کرنے کی کوشش کرینگے ۔

کیونکہ سی پیک کی افادیت گوادر کے بغیر کچھ بھی نہیں ہے ،جب یہ منصوبہ مکمل ہوگا تو زمین اور وسائل بلوچستان کے استعمال ہونگے، انتقال آبادی کا بوجھ بلوچستان اٹھائے گا جس سے بلوچ قوم کی تشخص اور شناخت خطرے میں پڑنے کا اندیشہ ہے۔ 

لہذا جب نقصانات اہل بلوچستان کے حصے میں آنے ہیں تو فائدہ بھی سب سے زیادہ بلوچستان کا ہونا چاہیے۔یہ سوچ اسلام آباد کی ہونی چائیے تھی لیکن وہ صرف بڑے بڑے اعلانات کرتا ہے اور بلوچستان کے طلباء کے کوٹے پر دوسرے صوبوں کے طلباء کو تربیت لینے چین بھیجتا ہے کیونکہ اختیارات پر وہی قابض ہے وہ جو چاہے کرے۔

بلوچستان کو حصہ بقدر جثہ ملنا چائیے لیکن دینے والے آٹے میں نمک برابر بھی نہیں دینا چاہتے لہذا ہمیں بھی اپنے مطالبات جرات مندانہ طور پر وفاق کے سامنے رکھنے چاہئیں، سی ایم شپ تو آتی جاتی رہے گی، اپنے عوام کا اعتماد نہیں کھونا چاہیے۔