کراچی: انویسٹی گیشن پولیس نے ایم کیوایم کے سابق رکن قومی اسمبلی علی رضا عابدی کے قتل کی تفتیش کے لیے ان کے گھر پر تعینات سیکیورٹی گارڈ کو حراست میں لے لیا۔
نماز جنازہ اور تدفین
گزشتہ روز کراچی کے علاقے ڈیفنس میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے جاں بحق سابق ایم این اے علی رضا عابدی کی نماز جنازہ امام بارگاہ یثرب میں ادا کی گئی جس میں ان کے عزیز و اقارب، تمام جماعتوں کے سیاست دانوں اور عام لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ بعدازاں انہیں ڈیفنس قبرستان میں آہوں اور سسکیوں میں سپردخاک کردیا گیا۔
تحقیقات میں اہم پیش رفت
علی رضا عابدی کے قتل کی تحقیقات میں اہم پیش رفت ہوئی ہے اور تفتيشی حکام کو فرانزک رپورٹ موصول ہوگئی ہے۔ ذرائع کے مطابق قتل میں 30 بور پستول کا استعمال کیا گیا ہے اور 10 دسمبر کو لياقت آباد ميں احتشام نامی نوجوان کے قتل ميں بھی يہی اسلحہ استعمال ہوا تھا۔ تفتيشی حکام نے احتشام کے قتل کی تحقيقات شروع کردی ہیں۔
اہم گرفتاریاں
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی زیر صدارت امن و امان کی صورتحال پر اجلاس ہوا جس میں چیف سیکرٹری، ڈی جی رینجرز سندھ، آئی جی سندھ اور ہوم سیکرٹری سمیت دیگر اعلیٰ افسران نے شرکت کی۔ ڈی آئی جی ساؤتھ نے بریفنگ میں بتایا کہ پولیس نے کیس میں بعض اہم گرفتاریاں کی ہیں اور قتل میں جو طریقہ کار اپنایا گیا اس سے واضح شواہد مل رہے ہیں جب کہ پولیس ملزمان کےقریب پہنچ گئی ہے، قائد آباد دھماکے سے لیکر علی رضا عابدی قتل تک ان واقعات میں کافی مماثلت ہے۔
گارڈ زیر حراست
علی رضا عابدی کے اہل خانہ سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایس ایس پی ساؤتھ پیر محمد شاہ نے کہا کہ واقعے کی ذاتی تنازع، سیاسی اور مذہبی سمیت ہر پہلو سے تحقیقات کررہے ہیں، علاقے میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں میں دو تین مقامات پر ملزمان کی نشاندہی ہوئی ہے، فرانزک تحقیقات جاری ہیں کہ ہتھیار پہلے کبھی کسی واقعے میں استعمال ہوا یا نہیں۔
ایس ایس پی ساؤتھ نے بتایا کہ حملہ کرنے والے دو ملزم تھے، گارڈ کے دروازہ کھولنے کے بعد فائرنگ ہوئی، گارڈ فوری جوابی کارروائی کے بجائے گھر کے اندر چلا گیا اور اندر جاکر علی رضا عابدی کے والد سے ملزمان پر جوابی فائرنگ کیلیے ہتھیار مانگا۔
ایس ایس پی ساؤتھ پیر محمد شاہ نے مزید کہا کہ گارڈ قدیر کو تعینات ہوئے ڈیڑھ سے دو ماہ ہوئے ہیں اور اس کا تعلق ڈیرہ غازی خان سے ہے، وہ غیر تربیت یافتہ تھا اور عین موقع پر بوکھلا گیا، اس کی ٹریننگ ہونی چاہیے تھی، علی رضا عابدی کے اہل خانہ نے کسی خطرے اور خدشے کا ذکر نہیں کیا، واقعے کا مقدمہ نماز جنازہ اور تدفین کے بعد درج کیا جائے گا۔