وفاقی حکومت نے ملک کے سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سمیت ان 172 افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جن کے اکاؤنٹس سے مبینہ طور پر اربوں روپے منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ممالک بھجوائے گئے ہیں۔اس بات کا فیصلہ وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں گزشتہ روز ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کیا گیا۔
دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے ترجمان عامر فدا پراچہ نے سابق صدر کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے پر اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ کسی بھی عدالتی فیصلے سے قبل آصف زرداری کا نام ای سی ایل میں نام ڈالنا کھلی بدمعاشی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 25 جولائی 2018 کو ہونے والے عام انتخابات سے لے کر اب تک آصف زرداری ملک میں ہیں اور ای سی ایل میں ان کا نام ڈالنا ڈرامہ ہے۔اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے جو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنی حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے اس رپورٹ میں شامل تمام افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کیے جائیں گے۔
ایف آئی اے کے حکام کے مطابق اس فہرست میں آصف علی زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور کا نام بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ اومنی گروپ کے علاوہ نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالکان اور شیئر ہولڈروں کے نام بھی شامل ہیں۔
آصف علی زرداری ا ور ان کی ہمشیرہ ان دنوں عبوری ضمانت پر ہیں جبکہ اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید اور ان کا بیٹا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحویل میں ہیں۔وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ احتساب کا عمل جاری رہے گا اور ان افراد نے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کر کے ملک کو نقصان پہنچایا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں اْنھوں نے کہا کہ جعلی اکاؤنٹس کی تحقیقات آصف علی زرداری کو شامل کیے بغیر مکمل نہیں ہوتیں۔ اْنھوں نے کسی بھی سیاست دان کا نام لیے بغیر کہا کہ اگر کوئی بھی احتساب کے معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا تو اْنھیں جلد ہی حقیقت معلوم ہو جائے گی۔الیکشن کمیشن نے آصف علی زرداری کی نااہلی سے متعلق درخواست کو سماعت کے لیے منظور کر لیا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی سمیت حزب مخالف کی دیگر جماعتیں موجودہ حکومت کے احتساب کے عمل کو سخت تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ احتساب کا عمل یکطرفہ ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اگر آصف علی زرداری کو گرفتار کیا گیا تو ملک میں ’دمادم مست قلندر‘ ہوگا ا ور ملکی حالات خراب ہونے کی ذمہ داری حکمراں جماعت پر ہو گی۔پاکستان پیپلز پارٹی کے احتجاج سے متعلق سوال کے جواب میں فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اگرصرف شیری رحمان خود احتجاج کے لیے نکل آئیں تو بڑی بات ہو گی۔
اْنھوں نے کہا کہ جن لوگوں کے پیسے لوٹے گئے ہیں اْنھی لوگوں سے کہا جارہا ہے کہ ان کے حق میں احتجاج کریں۔ فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ لوٹ مار بچانے کے لیے احتجاج کیا جا رہا ہے۔سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کا نام بھی ای سی ایل میں شامل کیا گیا ہے۔ دوسری طرف الیکشن کمیشن نے سابق صدر آصف علی زرداری کی نااہلی سے متعلق درخواست کو سماعت کے لیے منظور کر لیا ہے۔
سابق صدر کی نااہلی کی درخواست پاکستان تحریک انصاف کے رہنما خرم شیر زمان نے دائر کی تھی۔ملک میں سیاسی درجہ حرارت بڑھتاجارہا ہے جبکہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ بھی جاری ہے، اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آصف علی زرداری کی گرفتاری اگر عمل میں لائی گئی تو کیااپوزیشن ایک پیج پر آجائے گی کیونکہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے درمیان اب تک مضبوط روابط موجود نہیں جو اس سے قبل اپوزیشن میں دیکھنے کو ملتی تھی ،البتہ اس بار شاید دونوں جماعتوں کے قریب آنے کے قوی امکانات ہیں جس کے بعد تمام اپوزیشن جماعتیں اکٹھی ہوجائینگی۔
ملک کوکرپشن سے پاک کرنے کی صدائیں ہر جگہ سے بلند ہورہی ہیں اور اس کیلئے ضروری ہے کہ احتساب سب کے ساتھ یکساں ہونا چاہئے تاکہ یہ تاثر زائل ہوسکے کہ سیاسی انتقامی کارروائیوں کے نتیجے میں یہ سب کچھ ہورہا ہے کیونکہ اس کے مستقبل میں منفی اثرات مرتب ہونگے لہٰذا ضروری ہے کہ ان سب کا احتساب ہونا چاہئے جن پر کرپشن کے کیسز موجود ہیں اور ان کے خلاف بلاتفریق کارروائی کی جائے جس سے گڈ گورننس پر سوالات نہ اٹھائے جاسکیں۔
گڈگورننس کیلئے احتساب سب کا ہونا چاہئے
وقتِ اشاعت : December 28 – 2018