بلوچستان میں انسانی وسائل کی ترقی کی لیے گزشتہ حکومت کے دوران اربوں روپے مختص کئے گئے تاکہ صوبہ میں تعلیمی پسماندگی کا خاتمہ کیاجاسکے اور اسی بنیاد پر تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی گئی تھی مگر پورے دورانیہ میں خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے، بلوچستان میں تعلیمی شرح انتہائی کم ہے خود حکومتیں اس بات کا اعتراف کرچکی ہیں کہ لاکھوں بچے اسکولوں سے آج بھی باہر ہیں اور اسکولوں کی حالت زار بھی انتہائی ابتر ہے۔
بعض علاقوں میں تعلیمی اداروں کی عمارت ہی موجود نہیں، اگر ہے تو اس کی حالت انتہائی خستہ ہے۔ متعدد بار دارالخلافہ کوئٹہ میں سرکاری اسکولوں کے متعلق نشاندہی کی گئی کہ بچے کرایہ کی عمارتوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں جبکہ سرکاری سطح پر خاص کر سریاب جیسے علاقے میں اسکول تعمیر نہیں کئے گئے ۔
المیہ یہ ہے کہ سابق دور حکومت کے صوبائی وزیر تعلیم نے انتہائی متعصبانہ بیان دیا کہ سریاب میں آبادی اتنی نہیں کہ یہاں تعلیمی ادارے قائم کئے جائیں جبکہ اسی جماعت سے تعلق رکھنے والا رکن دوسری باراسی علاقے سے ایم پی اے منتخب ہوکر آیا ہے، یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ یہ علاقہ گنجان آبادی پر مشتمل کچی آبادی اور قدیم آبادی ہے مگر اس طرح کی متعصبانہ روش اپنانا انتہائی افسوسناک ہے۔
کوئٹہ سمیت صوبہ کے دیگر اضلاع میں جب تک پرائمری کی سطح سے تعلیمی معیار کو بہتر نہیں کیاجائے گا ، ہمارے بچے جدید دور کا اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کرپائینگے ۔بچوں کی تعلیم سے دوری کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پرائمری سطح پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی اس لئے ضروری ہے کہ پہلے پرائمری سطح پر تعلیم کے معیار کو بہتر بنایاجائے ۔
گزشتہ روز صوبائی وزیر اطلاعات و ہائر ایجوکیشن ظہور احمد کاکہناتھا کہ بلوچستان کے عوام کو بہتر تعلیم دینے کے لیے حکومت عملی اقدامات اٹھا رہی ہے۔ بلوچستان میں مزید یونیورسٹیوں کا قیام ناگزیر ہوچکا ہے۔ حکومت خضدار میں مجوزہ یونیورسٹی اور بلوچستان میں دیگر یونیورسٹیوں کے قیام کے لئے نتیجہ خیز اقدامات اٹھا رہی ہے۔
بلوچستان میں یونیورسٹیوں کی جلد از جلد تعمیر اور فعالیت اعلیٰ تعلیم کی ترقی و ترویج کے لیے نہایت ضروری ہے۔ صوبائی وزیر نے کہا کہ بلوچستان میں تعلیمی پسماندگی کے خاتمے کے لیئے حکومت شعبہ تعلیم میں سفارش اور اقربا پروری کی بجائے میرٹ اور قابلیت کو مقدم رکھے گی۔
حکومت بلوچستان خضدار یونیورسٹی سمیت دیگر یونیورسٹیز کو جلدازجلد فعال بنانا چاہتی ہے تاکہ کسی مشکل اور تکلیف کے بغیر ہمارے نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکیں۔ بلوچستان کے تمام کالجز میں میرٹ کی بنیاد پر پرنسپل تعینات کئے جا رہے ہیں۔
حکومت بلوچستان کے تمام یونیورسٹی اور کالجوں کو سیاست، لسانیات اور علاقائیت سے بالاتر ہوکر یکساں سہولیات مہیا کر رہی ہے۔حکومت کی جانب سے یونیورسٹی اور کالجوں میں بہتری کیلئے اقدامات قابل ستائش ہیں مگر اسی طرح سے حکومتی کمیٹی کم از کم ہر ماہ باقاعدگی سے جائزہ رپورٹ بھی لے تاکہ پتہ چلے کہ حکومت جووسائل خرچ کررہی ہے اس سے بہتری آرہی ہے یا نہیں۔
کیونکہ ماضی میں یہ دیکھاگیا کہ اربوں روپے تعلیم پر مختص کرنے کے باوجود وہ اہداف حاصل نہیں کئے گئے جس کی توقع کی جارہی تھی۔ حکومتی کمیٹی کی جانب سے تعلیمی شعبہ میں سفارش، اقرباء پروری کی بجائے قابلیت اور میرٹ کوترجیح دینے پر زور دیاجارہا ہے یقیناًاس سے کسی حد تک محکمہ تعلیم میں بہتری کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔
محکمہ تعلیم میں بھی سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں عمل میں لائیں گئیں جبکہ ایک دو یونیورسٹیوں میں لسانیت کی بنیاد پر پرنسپل تعینات کئے گئے جو عرصہ دراز سے اسی جگہ تعینات ہیں، یہ عمل کسی طرح بھی قابل تحسین نہیں اس کو بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔