|

وقتِ اشاعت :   January 7 – 2019

وزیراعظم عمران خان ان دنوں پڑوسی ممالک کے سربراہان سے ملاقاتیں کررہے ہیں۔ یہ ایک انتہائی بہترین قدم ہے کیونکہ پاکستان اپنے محل وقوع کے حوالے سے خطے کے اہم ممالک میں شمار ہوتا ہے جہاں تجارتی حوالے سے خاص فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ 

پاکستان آج مالی بحران کا شکار نہیں بلکہ پچھلے کچھ دہائیوں سے اس صورتحال کا سامنا کرناپڑرہا ہے مگر یہ سابقہ حکومتوں کی پالیسی کا بھی ایک نتیجہ ہے جنہوں نے پڑوسی ممالک خاص کرمسلم ممالک کے ساتھ اپنے روابط کو برقرار نہیں رکھا اگر اس دوران ہم انہی ممالک سے تجارتی روابط بڑھاتے تو ہمارے یہاں سرمایہ کاری میں اضافہ ہوتا،اور ہماری برآمدات بھی بڑھ جاتیں جس سے ہم موجودہ چیلنجز سے نمٹ سکتے تھے۔

آج ہمارے پڑوسی ممالک اپنے وسائل کے بہترین استعمال سے دنیا کے امیر ترین ممالک میں شمار ہوتے ہیں جہاں دنیا کے بیشتر سرمایہ کار اس وقت کام کررہے ہیں مگر ہم نے اپنے وسائل سے اس قدر فائدہ نہیں اٹھایا کہ انہیں بہتر انداز میں بروئے کار لاتے ہوئے عالمی مارکیٹ میں اپنے قدم جماتے ۔

گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے پاکستان میں بڑھتی ہوئی ترک سرمایہ کاری پر اطمینان کا اظہار کیا اور پاک،ترک مثالی برادرانہ تعلقات کو فعال اقتصادی شراکت داری میں ڈھالنے کی ضرورت پر زور دیا۔

ترکی کے خارجہ اقتصادی تعلقات بورڈ کی پاک،ترک بزنس کونسل کے زیر اہتمام اجلاس میں تقریباً 20 اہم سرمایہ کاروں نے شرکت کی جن کے متعدد منصوبے پاکستان میں جاری ہیں۔ وزیراعظم نے ترک سرمایہ کاروں کو یقین دلایا کہ حکومت انہیں ہر ممکنہ سہولیات اور معاونت فراہم کرے گی۔ 

مذکورہ بورڈ کے صدر نیل اولپاک اور پاک۔ترک بزنس کونسل کے چیئرمین عطاء اﷲ یرلیکایا نے پاکستان میں ترک سرمایہ کاری کے بارے میں آگاہ کیا۔ ترک سی ای اوز نے اپنی کاروباری سرگرمیوں اور آئندہ کے منصوبوں کے بارے میں آگاہ کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان انسانی و معدنی وسائل سے مالا مال ملک ہے جہاں تعلیم یافتہ افرادی قوت موجود ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سرمایہ کاری دوست پالیسی ترک سرمایہ کاروں کیلئے مثالی مواقع پیش کرتی ہے، ملک میں کاروبار میں آسانی اور مزید بہتری کیلئے مربوط کوششیں کی جا رہی ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اور اس کی کابینہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ سب سے پہلے مسلم ممالک اور پڑوسی ممالک کے ساتھ تجارتی روابط کو بڑھائے اور ساز گار ماحول پیدا کرتے ہوئے سرمایہ کاری کی طرف بڑھے ۔

اس سے قبل بھی ہمارے پاس مواقع آئے مگر ہم نے ان سے فائدہ نہیں اٹھایا، ایران ہمیں بجلی دینے کو تیار ہے جس سے ہم بجلی بحران سے نکلنے کے ساتھ ساتھ صنعتیں قائم کرسکتے ہیں ۔اسی طرح پاک ایران گیس منصوبہ جو کہ ایک میگا منصوبہ تھا اس پر بھی کام نہیں ہوسکا جس کا یہ نتیجہ نکلا کہ آج تک ہم بجلی کے مسائل سے دوچار ہیں اوروہیں ہماری صنعتیں بھی تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہیں۔ 

حالات کا تقاضہ یہی ہے کہ ملکی مفادات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سب سے پہلے ہم اسلامی اور پڑوسی ممالک کے ساتھ تجارت کرنے کیلئے منصوبہ بندی کریں کیونکہ یہ پہلا قدم ہوگا جو ہمیں مشکلات سے نکالنے میں مدد دے گا جس کے بعد عالمی سطح پر لابنگ کرتے ہوئے اپنی برآمدات کو عالمی منڈی تک پہنچانے کیلئے کوششوں کو تیزنا ہوگا یقیناًاس کے دوررس نتائج برآمد ہونگے، وزیراعظم عمران خان کی جانب سے حالیہ دورہ اور ملاقاتیں ملکی معیشت کیلئے نئی سمت کا تعین کرنے کیلئے سود مند ثابت ہونگی لہذا اسے تسلسل کے ساتھ جاری رکھنا ضروری ہے۔