بلوچستان میں پیش ہونے والے بجٹ ہمیشہ خسارے کا ہوتے ہیں جن میں ترقیاتی اور عوامی فلاح کے منصوبوں کو نظرانداز کیا جاتا ہے، گزشتہ حکومت کے دوران ہر سال تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے اربوں روپے رکھے گئے۔
ہر ذی شعور شخص جانتا ہے کہ ان شعبوں میں بہتری نہیں آئی بلکہ آج بھی صورتحال اسی طرح ہے ،عوام آج بھی صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ کوئٹہ سمیت اندرون بلوچستان عوام کونہ تعلیم میسر ہے اور نہ علاج معالجے کی سہولت حاصل ہے۔ گزشتہ روزوزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی زیرصدارت منعقد ہونے والے صوبائی کابینہ کے اجلاس میں پی ایس ڈی پی 2018-19ء سے متعلق امور کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
ایڈیشنل چیف سیکریٹری منصوبہ بندی وترقیات سجاد احمد بھٹہ نے کابینہ کو ہائی کو رٹ کے فیصلے کی روشنی میں رواں سال کی پی ایس ڈی پی میں شامل نئے ترقیاتی منصوبوں کو استدلالی (Rationalized) بنانے کے لئے اب تک کی گئی مشق (Exersice) سے آگاہ کیا، اجلاس میں جاری منصوبوں کے لئے فنڈز کے اجراء کا طریقہ کار طے کرنے کے حوالے سے مختلف تجاویز کا جائزہ بھی لیا گیا۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کابینہ کے اجلاس میں طے کئے گئے طریقہ کار کے مطابق رواں ماہ کے آخر تک محکمہ منصوبہ بندی وترقیات نئے ترقیاتی منصوبوں کو اصولوں کے مطابق حتمی شکل دے گا۔ کابینہ نے فیصلہ کیا کہ پی ایس ڈی پی کے حوالے سے قائم کابینہ کی سب کمیٹی حذف کئے گئے ۔
منصوبوں کا جائزہ لے گی اور متعلقہ محکمے ان سکیموں سے متعلق اپنا موقف پیش کریں گے جبکہ ایسے جاری منصوبے جو کسی بھی تحقیقاتی ادارے کے زیر تحقیق ہیں یا دس سال سے زیادہ مدت سے زیر تکمیل ہیں ،کی علیحدہ فہرست مرتب کرکے انہیں حتمی فیصلے کے لئے صوبائی کابینہ کے آئندہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا اور کابینہ کے فیصلے تک ایسے منصوبوں کے لئے فنڈز کا اجراء معطل رہے گا۔
علاوہ ازیں کابینہ میں پیش کی گئی 245جاری اسکیموں کے بارے میں حتمی فیصلہ کرنے کے لئے انہیں کابینہ کی سب کمیٹی میں پیش کیا جائے گا۔ کابینہ نے پی ایس ڈی پی میں شامل منصوبوں کے لئے مختص فنڈز (Allocation) کا ازسرنو جائزہ لے کر انہیں استدلالی بنانے کا فیصلہ بھی کیا۔
کابینہ نے نئے منصوبوں کے طریقہ کار کے حوالے سے فیصلہ کیا کہ متعلقہ محکمے منصوبوں کا تصوراتی خاکہ اور پی سی ون تیار کرکے کابینہ کی منظوری کے لئے محکمہ منصوبہ بندی وترقیات اور محکمہ خزانہ کو ارسال کریں گے اور کابینہ کی منظوری کے بعد انہیں حتمی منظوری کے لئے صوبائی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ گزشتہ ایک دھائی سے زائد مدت سے زیر تکمیل منصوبوں کی علیحدہ فہرست تیار کرنے تک ان منصوبوں کیلئے فنڈز کا اجراء معطل کرنے کافیصلہ کیا گیا ہے۔ حالانکہ ہونا تو یہ چائیے کہ حکومت ان منصوبوں کے متعلق تحقیقات کرے کہ یہ منصوبے اتنے طویل تک مکمل کیوں نہیں ہوئے اور ان کے لیے مختص رقم کہاں گئی ۔
یہ بات تو واضح ہے کہ اس نوعیت کے منصوبوں کو طول دینے کا مقصد صرف اور صرف عوامی پیسے کی لوٹ مار ہے۔ لہذا حکومت ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے اور پتہ چلائے کہ اس لوٹ کھسوٹ میں کون ملوث ہے ، ان کو بے نقاب کرنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ ایسے ہی عناصر کی وجہ سے بلوچستان پسماندہ ہے ۔
یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ گڈ گورننس قائم کرنے کیلئے احتساب کرے ۔ المیہ یہ ہے کہ جو کام منتخب نمائندوں کا ہے اسے ماتحت ادارے کرتے ہیں اور پھر سوالات اٹھائے جاتے ہیں ۔
اگر حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے مشترکہ کمیٹی تشکیل دی جائے تو بہت ہی اچھا اقدام ہوگا کیونکہ پھر اس کی شفافیت پر کوئی سوال نہیں اٹھائے گا۔ حکومت کی جانب سے ان منصوبوں کے لیے فنڈز کے اجراء کو روکنا اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہاں عوام کا پیسہ ضائع اور کرپشن کی نظر ہورہا تھا ۔ امید ہے کہ بلوچستان کے عوام کا پیسہ لوٹنے والوں کا حکومت کڑا احتساب کرے گی۔