میئر کوئٹہ ڈاکٹر کلیم اللہ کاکڑ نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ کوئٹہ شہر میں بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کرنے والے مافیاز سرکاری آفیسران کو باقاعدہ رشوت دیتے ہیں، اوپر سے لیکر نچلی سطح تک سب اس میں ملوث ہیں۔ آسان لفظوں میں یہ کہاجائے کہ بلڈنگ کوڈکی دھجیاں اڑانے والے رشوت سرکاری خور آفیسران ہیں جنہیں عوام سے کوئی ہمدردی نہیں۔
جن آفیسران کو ایمانداری سے اپنے فرائض سرانجام دینا چاہئے وہ پیسہ بٹورنے میں مصروف ہیں۔ کوئٹہ شہر دن بہ دن مسائل میں گرتا جارہا ہے، تجاوزات کی بھرمار ہے، شورومز مافیا عرصہ دراز سے شہر کی سڑکوں پر قابض ہے جبکہ ایک طاقتور مافیا کوئٹہ شہر میں رشوت دیکر بلڈنگ کوڈ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عمارتیں تعمیر کررہاہے جس سے کبھی بھی کوئی بڑا انسانی المیہ رونما ہوسکتا ہے کیونکہ کوئٹہ شہر زلزلہ زون میں واقع ہے۔
1935ء کے ہولناک زلزلے نے شہر کو صفحہ ہستی سے مٹادیا تھا بڑی تعداد میں انسانی جانوں کا ضیاع ہوا تھا اس وقت آبادی پچاس ہزار کے قریب تھی مگر اب شہر کی آبادی پچیس لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے اگر خدانخواستہ کوئی بڑا زلزلہ آیا تو لاکھوں جانیں جاسکتی ہیں مگر اس کی پرواہ کسے ہے ۔
میئر کوئٹہ ڈاکٹر کلیم نے انکشاف کرتے ہوئے کہاکہ شہر میں بلڈنگ کوڈ کے قانون پر عملدرآمد نہ ہونے کی بڑی وجہ میٹروپولیٹن کارپوریشن سمیت دیگر ڈیپارٹمنٹس کے آفیسران کی رشوت خوری ہے جو بلڈنگ کوڈ پر عملدرآمد نہیں کرنے دیتے، ان کا کہناتھا کہ حکومت بھی مافیاز کے سامنے بے بس ہے میئر کوئٹہ نے بلڈنگ بائی لاز کی خلاف ورزی پر اظہار بے بسی کرتے ہوئے کہا کہ بلڈر مافیا کے سامنے بے بس ہوں ۔
اب تو مافیا کیخلاف آپریشن کرنے کو بھی دل نہیں کرتا،گزشتہ کئی سالوں سے اقدامات کرنے کے باوجود کچھ نہ کرسکا کیونکہ آفیسران نوٹوں کے نیچے دب چکے ہیں جن میں اوپر سے لیکر نیچے تک تمام افراد ملوث ہیں۔
انہوں نے اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اپنی مدد آپ کے تحت عمارتوں کیخلاف کارروائی کے دوران بلڈنگ گرادیتے تھے تو چند ماہ گزرتے ہی یہی مافیا اس سے بلند عمارتیں تعمیر کردیتے ، کوئٹہ میں بلڈر مافیا حکومت سے زیادہ طاقتور ہے گزشتہ کئی سالوں سے حکومت کو بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے قیام کا کہہ چکا ہوں لیکن حکومت نے کوئی دلچسپی نہیں لی ۔
اگر یہ بات درست نہیں تو حکومت اس کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے فوری طور پر بلڈنگ کوڈ کی دھجیاں بکھیرنے والے عناصر کے خلاف فوری کارروائی عمل میں لائے اور جو آفیسران اس عمل میں شریک ہیں انہیں فارغ کردیا جائے کیونکہ ایسے آفیسران سے کسی خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی جو انسانی زندگیوں کو داؤ پر لگاکر پیسہ بٹورنے میں لگے ہوئے ہیں۔
عوام کو پہلے سے ہی اس بات کی پریشانی ہے کہ کوئٹہ شہر میں ٹریفک کا دباؤ بڑھتا جارہا ہے، تجاوزات میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے جبکہ سڑکوں پر مافیاز کا قبضہ ہے جس کی وجہ سے عوام کاپیدل چلنا تک محال ہوچکا ہے مگر اس مسئلے کی جانب کسی قسم کی توجہ نہیں دی جارہی۔
صوبائی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ حقائق کو جاننے کیلئے سب سے پہلے میئر کوئٹہ کو طلب کرے اور اس سے معلومات لے کہ کون سے آفیسران اس گھناؤنے عمل میں شریک ہیں اور ان بااثر مافیاز کا تعلق کن قوتوں سے ہے جو قانون کو کسی خاطر میں نہیں لاتے ۔ اس سے قانون کی کمزوری کاتاثر پھیلے گا ، وفاقی حکومت جہاں دیگر صوبائی دارالخلافہ کو مسائل سے نکالنے کیلئے کام کررہی ہے وہیں بلوچستان کے دارالخلافہ کوئٹہ کو لاوارث چھوڑکر مافیاز کے حوالے کردیا گیا ہے۔
امید ہے کہ حکو مت اس اہم مسئلے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے کوئٹہ شہر سے مافیاز کا خاتمہ کرے گی تاکہ کوئی بھی عناصر پیسے اور طاقت کے بل بوتے پر قانونی رٹ کو چیلنج نہ کرسکے ۔کیونکہ حکومتی گڈگورننس ایک بہترین طرز حکمرانی سے ہی جانی جاتی ہے جس کا اعادہ موجودہ حکومت نے کیا ہے۔