سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد ان کی جگہ لینے والے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جہاں دیگر اہم باتوں کی جانب اشارہ کیا، وہیں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ از خود نوٹس کا استعمال صرف اس صورت میں کریں گے جب کوئی صورت نہیں ہوگی۔
گزشتہ روز اسلام آباد میں سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس ثاقب نثار کے اعزاز میں سپریم کورٹ میں فل کورٹ ریفرنس کا انعقاد ہوا۔اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ وہ جسٹس ثاقب نثار کے ساتھ گزشتہ 20 سال اور آٹھ ماہ سے ہیں اور آج وہ دونوں علیحدہ ہوجائیں گے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ازخود نوٹس کا استعمال بہت کم کیا جانا چاہیے اور صرف قومی اہمیت کے حامل معاملات پر لیے جانے چاہئیں جہاں کوئی اور مناسب اور مؤثر حل دستیاب نہ ہو یا دستیاب آئینی اور قانونی حل بے اثر یا بے کار ہوجائیں۔انہوں نے ہائی کورٹس کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ عدالت عالیہ کو اپنے اختیارات حدود کے اندر رہ کر استعمال کرنے چاہئیں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ایک بار میاں ثاقب نثار نے کہا تھا کہ ان کی زندگی میں دو ہی مقصد رہ گئے ہیں ایک ڈیم بنانا اور دوسرا ملک کو قرضوں سے نجات دلانا۔میں بھی کچھ ڈیم بنانا چاہتا ہوں، ایک ڈیم عدالتی مقدمات میں غیرضروری تاخیر کے خلاف، ایک غیرسنجیدہ قانونی چارہ جوئی اور جعلی عینی شاہدین اور جعلی گواہوں کے خلاف اور یہ بھی کوشش کروں گا کہ قرض اتر سکے، زیرالتواء مقدمات کا قرض جنہیں جلد از جلد نمٹایا جائے۔
ان کا کہناتھا کہ ملک کی تمام عدالتوں میں 19 لاکھ کے قریب زیرالتوا مقدمات ہیں اور اتنے مقدمات کی سماعت کے لیے اوپر سے نیچے تک صرف تقریباً 3000 جج اور مجسٹریٹ ہیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ اب وقت ہے کہ غیرضروری تاخیر کو ختم کرنے اور قانونی چارہ جوئی میں کمی کے لیے ساخت اور نظام کی تبدیلی متعارف کروائی جائے۔
ملک میں عدلیہ کا رائج چار درجہ تنظیمی ڈھانچے کے بجائے تین درجے پر مشتمل تنظیمی ڈھانچہ ہونا چاہیے جس میں ضلعی عدلیہ تمام سول اور کرمنل مقدمات کے لیے ٹرائل کورٹ ہو، صوبائی ہائی کورٹ اپیل کورٹس اور سپریم کورٹ رسائی کا آخری مرحلہ ہو۔ان کا مزید کہنا تھا کہ تمام خصوصی عدالتوں کو ختم کر دینا چاہیے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں کسی سویلین کا ٹرائل ساری دنیا میں غلط سمجھا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کہا جاتا ہے کہ فوجی عدالتوں میں جلد فیصلے ہوتے ہیں تاہم کوشش کی جائے کہ سول عدالتوں میں جلد مقدمات پر فیصلے ہوں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ کے اس بیان کا سوشل میڈیا پر خیرمقدم کیا گیا ہے اور امید کا اظہار کیا گیا ہے کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ اپنے کہے کو صحیح بھی ثابت کریں گے۔
ملک کی تاریخ میں سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے دورمیں سب سے زیادہ ازخود نوٹس لئے گئے اور سب سے اہم اور بڑے فیصلے کئے گئے جس سے ملک میں ایک بڑی سیاسی تبدیلی رونما ہوئی اور ایک ہلچل سی پیدا ہوگئی۔ سب سے اہم میاں نواز شریف کی رخصتی تھی جس کے بعد ملک میں سیاسی فضاء گرم ہوگئی اور مسلم لیگ ن نے بڑے بڑے عوامی اجتماعات منعقد کئے جس کی قیادت نواز شریف نے خود کی مگر کچھ عرصہ کے گرم ماحول میں آہستہ آہستہ تبدیلی آنے لگی۔
البتہ اب یہ بات انتہائی اہم ہے کہ نئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس جانب اشارہ دیا ہے کہ وہ ایک ڈیم عدالتی مقدمات میں غیرضروری تاخیر کے خلاف بنائینگے یعنی مکمل توجہ عدالتی نظام اور فوری وسستا انصاف کی فراہمی پر ہوگا جہاں جعلی گواہان کی کوئی اہمیت نہیں رہے گی۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے یہ واضح پیغام دیا ہے کہ سب سے بڑا قرض انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے تاکہ ملک میں عدل کا نظام مزید بہتر ہوسکے اور انصاف کی فراہمی میں تاخیر ممکن نہ رہے۔
ازخودنوٹس کا کم استعمال اورمقدمات کو جلد نمٹانے کا عزم
وقتِ اشاعت : January 19 – 2019