|

وقتِ اشاعت :   January 20 – 2019

گزشتہ چند ماہ کے دوران افغانستان کے حوالے سے مذاکرات میں تیزی دیکھنے کو مل رہی ہے البتہ مذاکرات کے خاص نتائج برآمد نہیں ہورہے مگر کوشش پوری طرح سے جاری ہے کہ کسی نہ کسی طرح سے مذاکرات کامیابی طرف جاسکیں۔ 

افغان عمل میں پاکستان کے ثالثی کے کردار کو انتہائی اہمیت حاصل ہے ماضی میں بھی افغانستان میں دیرپا امن قائم کرنے کیلئے پاکستان کی جانب سے ہرقسم کے تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی تھی بشرطیکہ مذاکرات کو ہی اہمیت دیتے ہوئے جنگی ماحول کو ختم کیا جائے اور پاکستان نے بھی اس سے انکار کیا تھا کہ وہ کسی غیر کی جنگ کا حصہ بنے گا البتہ خطے میں استحکام کیلئے بات چیت کے حوالے سے امن کا حصہ ضرور بنے گا۔

گزشتہ روزافغان طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور اسلام آباد میں کرانے پر اتفاق کیا گیا۔دفتر خارجہ میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کے درمیان ملاقات کے دوران افغان مفاہمتی عمل میں پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

اس موقع پر امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے درخواست کی کہ افغان طالبان کابل انتظامیہ کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں اور نہ ہی جنگ بندی کے لیے تیار ہیں اس لیے مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے پاکستان اپنا کردار ادا کرے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان کی بھی خواہش ہے کہ طالبان کو دعوت دی جائے کہ وہ اسلام آباد آئیں اور یہاں مذاکرات ہوں، امکان ہے کہ افغان طالبان کے ڈیڑھ درجن سے زائد رہنما اسلام آباد آئیں گے۔ 

رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ افغان طالبان کے ساتھ امریکا کے مذاکرات میں قطر کے نمائندے کو بھی شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔اس موقع پر شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے مفاہمتی عمل مشترکہ ذمہ داری ہے اور خطے میں امن و استحکام سے متعلق پاکستان اپنی کاوشیں جاری رکھے گا۔

امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے لیے سہولت کاری پر وزیر خارجہ کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ امریکا، افغانستان میں قیام امن سے متعلق پاکستان کی کاوشوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان کے تعاون سے گزشتہ ماہ متحدہ عرب امارات میں افغان طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات ہوئے تھے، قطر نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا کہ ہم آٹھ نو ماہ سے افغان طالبان کی میزبانی کر رہے ہیں اور یو اے ای میں مذاکرات سے ہمیں آٹ کردیا گیا جس کے بعد اب قطر کو بھی مذاکرات میں شامل کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔

خطے کی بدلتی صورتحال اس جانب اشارہ کررہا ہے کہ امریکہ بھی طاقت کے استعمال سے گریز کرنا چاہتی ہے جس کی واضح مثال گزشتہ دنوں امریکی صدر کی جانب سے افغانستان سے نصف فوج کی واپسی کا اعلان ہے مگر اس سے قبل بھی یہ اعلانات کئے گئے تھے پھر مزید فوجی بھیجنے کافیصلہ کیا گیا جس سے خود امریکہ مشکلات میں پھنس کر رہ گیا ہے۔

اس وقت صرف اس بات پر زور دینے کی ضرورت ہے کہ افغانستان میں ایک مضبوط حکومت کا قیام ضروری ہے وہ کوئی کٹھ پتلی حکومت نہ ہو، تبھی افغان مفاہمتی عمل میں تیزی آئے گی ۔ دنیا کو یہ بات سمجھ لینا چاہئے کہ افغانستان میں عالمی طاقتوں کی موجودگی سے امن مذاکرات کے کامیاب ہونے کے امکانات کم ہوسکتے ہیں اس لئے خود مختار افغان حکومت کے ذریعے ہی اس معاملے کو آگے بڑھایاجائے جبکہ دیگر اس میں ثالثی کا کردار ادا کریں ،یہی خطے کے وسیع تر مفاد میں ہے ۔