|

وقتِ اشاعت :   January 28 – 2019

محکمہ صحت نے بلوچستان بھر میں دن کے دفتری اوقات کارصبح 8 بجے سے دوپہر 2 بجے تک ڈاکٹروں کی پرائیویٹ پریکٹس پر مکمل پابندی عائد کردی ہے، پریکٹس کرنے والے ڈاکٹروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی، او پی ڈی سے غیر حاضر رہنے والے ڈاکٹروں کی تنخواہ سے کٹوتی کی جائے گی، تمام ڈپٹی کمشنر، میڈیکل سپرنٹنڈنٹ اور ضلعی صحت آفیسران کو ہدایات جاری کردی گئیں ہیں۔

ذمہ داروں کے خلاف قانون اور قاعدہ کے مطابق ضروری کارروائی کی جائے گی جبکہ ہفتہ وار رپورٹ محکمہ صحت کو ارسال کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس وقت ڈاکٹر تنظیمیں ڈاکٹر ابراہیم خلیل کی عدم بازیابی کے خلاف بلوچستان میں سرکاری ہسپتالوں میں اوپی ڈیز کو احتجاجاََ بندکرکے بیٹھے ہیں ، چالیس روز سے زائد گزر گئے ہیں ۔

ڈاکٹروں میں پائی جانے والی تشویش اپنی جگہ مگر اس کے ساتھ سینکڑوں لوگ روزانہ علاج ومعالجے کی غرض سے سرکاری ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں مگر او پی ڈیز کی بندش کی وجہ سے مایوس لوٹ جاتے ہیں جس سے وہ شدید ذہنی کوفت کا شکار ہورہے ہیں۔

دوسری جانب ڈاکٹر تنظیموں کا ردعمل دیتے ہوئے کہنا ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر شیخ ابراہیم خلیل کو اغوا ہوئے 45 دن گزر گئے ،کیا کبھی وزیر صحت یا سیکریٹری صحت نے ڈاکٹر ایکشن کمیٹی کو اپنے پاس بلایا۔ وزیر صحت نے ڈاکٹر ایکشن کمیٹی کیمپ آکر ہمارے زخموں پر مرہم رکھنا گوارا نہیں کیا۔

وزیر صحت نے ہمارے خدشات یا تحفظات کو سننے کی زحمت تک نہیں کی، اعلامیہ کا مقصد بند او پی ڈیز کا بہانا بناکر ڈاکٹروں کو بلا جواز اشتعال دلانا ہے، محکمہ صحت نے ڈاکٹروں کو سڑکوں پر دانستہ طور پر لانے کی کوشش کی ہے، محکمہ صحت کے نوٹیفکیشن کی پی ایم اے کوئٹہ بھرپور مخالفت کرتی ہے۔

پی ایم اے مذکورہ نوٹیفیکیشن فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کرتی ہے، نوٹیفکیشن واپس نہ لیا گیا تو خراب حالات کی ذمہ داری محکمہ صحت کے حکام اور وزیر صحت پر عائد ہوگی۔صبح کے وقت دوران ڈیوٹی پرائیویٹ کلینک چلانا محض الزام ہے، چند سازشی عناصر ڈاکٹروں کو بدنام کرنے کی غرض سے صبح کے ڈیوٹی اوقات کار میں پرائیویٹ پریکٹس کرنے والے ڈاکٹروں کی مخالفت کرتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان کے سرکاری ہسپتالوں میں سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں کوئٹہ کے صرف دو ہی سرکاری ہسپتال سول سنڈیمن اور بولان میڈیکل کمپلیکس ہیں جہاں تھوڑی بہت سہولیات موجود ہیں جس سے کوئٹہ سمیت بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے آنے والے مریض اپنا علاج کراتے ہیں کیونکہ اندرون بلوچستان اول تو ہسپتال ہی نہیں اور جہاں ہیں تو ان میں سہولیات کا فقدان ہے جس کی وجہ سے سینکڑوں مریض روزانہ کوئٹہ کا رخ کرتے ہیں۔

اس احتجاج اور ڈاکٹر خلیل ابراہیم کی عدم بازیابی نے صورتحال کو انتہائی تشویشناک بنادیا ہے جس کیلئے ضروری ہے کہ حکومت ایک کمیٹی تشکیل دے جس میں حکومتی واپوزیشن ارکان شامل ہوں تاکہ ڈاکٹر تنظیموں سے با ت چیت کے عمل کو آگے بڑھایاجائے اور ان کے تحفظات کو سنا جائے۔

یہی ایک بہتر عمل ہے کیونکہ ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عام لوگوں کے تحفظ کو یقینی بنائے اور مشکل حالات میں ان کا ساتھ دے۔ اسی طرح شہریوں کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مکمل طور پر قوانین کے مطابق اپنے حق کیلئے آوازاٹھائیں مگر کٹھن حالات میں حکومت کا ساتھ دیں ۔ حکومت اور ڈاکٹرزتنظیمیں بلوچستان کے عوام کی مشکلات کو سمجھتے ہوئے مذاکرات کے عمل کا آغاز کریں تاکہ ایک درمیانہ رستہ نکالاجاسکے جس سے یہاں کے عوام کے مسائل میں کمی آئے۔

امید ہے کہ ڈاکٹر تنظیمیں بھی اس صورتحال کو سنجیدگی کے ساتھ لیتے ہوئے بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل نکالنے کیلئے مکمل تعاون کریں گی، اور صبح کے اوقات کار میں پرائیویٹ پریکٹس سے گریز کریں گے کیونکہ اپنے فرائض ایمانداری سے ادا کرنا عین عبادت ہے اور جو ڈاکٹر پرائیویٹ پریکٹس کرنا چاہتا ہے تو پھر اسے سرکاری نوکری نہیں کرنا چاہئے بلکہ اپنی ساری توجہ اپنی پرائیویٹ پریکٹس پر دینا چائیے بصورت دیگر یہی توجہ ساری ہسپتال میں مریضوں کو دینا چائیے کہ یہی ایک مسیحا کے رتبے کا تقاضہ ہے۔